حضر ت علی کرم اللہ وجہہ کے اقوال روشنی کے مینار اور عقل و دانش کا خزانہ ہیں لیکن قدرتی بات ہے کہ انسان کو وہ اقوال یا قول زیادہ اچھے لگتے ہیں جو حسب حال ہوں اور ذاتی تجربات کے قریب ہوں مثلاً مجھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول اکثر یادآتا ہے کہ جو شخص ہر محفل اور ہر مکتب ِ فکر میں یکساں مقبول ہو یقیناً منافق ہے۔ یہ الفاظ میرے ہیں البتہ مفہوم یہی ہے۔ اس وقت کتاب میرے سامنے نہیں اسلئے صحیح الفاظ لکھنےسے قاصر ہوں۔ مطلب یہ کہ جس انسان کے کچھ نظریات ہیں، اس نے زندگی اور علم کی کتابوں سے کچھ نتائج اخذ کئے ہیں اور وہ ان میں یقین رکھتا ہے وہ یقیناً ان حلقوں میں منظور ِ نظر ہوگا جو اس کے نظریات سے متفق ہیں اور ان حلقوں میں ناپسندیدہ قرار پائےگا جن کےنظریات، عقائد اور سوچ اس سے مختلف یا برعکس ہے۔ نظریات، عقائداور تحقیق سے اختلاف کرنا ایک عمومی رویہ ہے۔معاشروں کی مسلمہ اور دیرینہ روایت ہے لیکن اگران نظریات کی آڑ میں شخصیت کو نشانہ بنایا جائے اور نظریات سے اختلاف کی بجائے شخصیت پر پتھر پھینکے جائیں تو یہ یقیناً کم ظرفی اور ذاتی نفرت و عنادکی علامتیں ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسا مرض ہے جو لاعلاج ہے اسلئے اس سے صحت یابی کیلئے دعا ہی کی جاسکتی ہے دوا نہیں۔ ویسے تجربہ و مشاہدہ یہ ہے کہ نظریات اورشخصیت میں فرق ملحوظ خاطر رکھنا آسان کام نہیں۔ اسلئے جب کسی کو کسی کے نظریات ، عقائد اور تحقیق پر غصہ آتا ہے تو وہ نظریات پرحملہ آور ہونے کیساتھ ساتھ اس کی شخصیت پر بھی حملے شروع کر یتاہے۔ اسی طرح جب کوئی کسی کے نظریات، تحریراور تحقیق پر اعتراض کرے تو لازم ہے کہ علمی و تحقیقی حوالوں سے انہیں رد کرے،غلط یا نیم غلط ثابت کرے نہ کہ شواہدکے بغیر محض اپنے خیالات و تصورات کی بنا پر خیالی تیر چلانا شروع کردے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ تحریر و تحقیق کو اپنے ذہنی یا تصوراتی سانچے پر فٹ کرتے ہیں اور اگر فٹ نہ ہوتی ہو تو قلمی فتوے دیناشروع کردیتے ہیں۔ قلمی فتوے سے مراد یہ ہے کہ ان کے پاس تحقیقی حوالوں کا تو جواب نہیں ہوتا لیکن اپنا غصہ نکالنے کیلئے دلیل کی بجائے سخت الفاظ کے ہتھیاروں سے حملہ آور ہوجاتے ہیں اور فیصلہ (Judgement) سنا دیتے ہیں۔ اس فتوے کی ذیل میں ہر وہ تحریر آتی ہے جس میں کسی کے نظریات کو علمی و تحقیقی انداز سے مستردکرنے کی بجائے محض چندلفظی ردعمل یا ناپسندیدگی کااظہار کر دیاجائے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے جوں جوں ہمارے معاشرے میں برداشت کی بنیادیں کمزور ہو رہی ہیں، جذباتی فیصلے سنانے، فتوے دینے اور مخالفین پر سنگ باری کا سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ ویسے یہ قوت برداشت سے شکایت والی بات بھی بہت پرانی ہے کیونکہ میں نے سرسیداحمدخان سے لیکر علامہ اقبال ، مولانا حالی ، مولانا حسرت موہانی حتیٰ کہ مولانا سالک، مولانا غلام رسول مہر، مولانا ظفر علی خان، فیض احمدفیض اور ڈاکٹر تاثیر تک سبھی کو برداشت کے حوالے سے شاکی پایا۔ نہرو،گاندھی اورقائداعظمؒ تو میدان سیاست کے شہسوار تھے اسلئے وہ عدم برداشت کے عادی تھے کیونکہ محاورے کی زبان میں محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتاہے اور ان حضرات کی سیاست بھی محبت ہی کاشاخسانہ تھی چنانچہ اس میں طنز کے وار بھی ہوتے تھے اور شخصیات پر بھی فقرے کسے جاتے تھے۔ یہ الگ بات کہ یہ حضرات مہذب ذہن اور مہذب کلاس سے تعلق رکھتے تھے اسلئے تہذیب کی سطح سے نیچے نہیں گرتے تھے جبکہ نظریاتی لکھاریوں، متحرک دانشوروں، شاعروں اور صحافیوں کا معاملہ دوسرا ہے۔ اس میدان میں کبھی کبھی مہذب رویوں کی روح مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ معاملہ برداشت سے متعلق نہیں بلکہ اپنی اپنی تربیت، ماحول اور مزاج سے جنم لیتا ہے کیونکہ میں نےاکثر دانشوروں، لکھاریوں، شاعروں اورصحافیوں کو اپنے اپنے مزاج کااسیرپایا ہے اوراس مزاج میں تھوڑا سا احساس برتری شامل ہوتا ہے جسے آپ غرور اورتکبر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کلاس میں اب اینکرپرسن بھی شامل ہوگئے ہیں بلکہ نمایاں ہیں۔ہمارے معاشرے میں انسان کی اہمیت، حیثیت اور ظاہری مقام اس کی ضرر رسانی کی قوت سے تشکیل پاتا ہے اسلئے جو شخص زیادہ ضرر رسا ں ہوتا ہے اسے زیادہ اہمیت ملتی ہے۔ اسکانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ و ارفع سمجھنےکے زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ احساس برتری کے نشے سے فتوے، مخالفین کی چیرپھاڑ، اختلافی آواز کو دبانے اور دوسروں کا تمسخر اڑانے کی عادت جنم لیتی ہے۔میں نے اکثرمحسوس کیا ہے کہ ان حضرات کو اپنی ان عادات کا شعور تک نہیں ہوتا کیونکہ وہ اسے نارمل اور جائز سمجھتے ہیں یااپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دوسروں میں نقائص ڈھونڈنے والوں کو اپنی ذات میں کمزوریاں نظر نہیں آتیں، نہ وہ اپنے آپ پر نظرڈالتے ہیں نہ ہی اپنا احتساب کرتے ہیں۔ سیاسی و سماجی وفاداریاں بدلنےوالوں کو مطعون کرنے والے خود وفاداری بدلنا جائز سمجھتے ہیں۔ اجازت دیجئے کہ میں گفتگو سمیٹتے ہوئے چندباتیں اپنے حوالے سے بھی عرض کردوں۔ ظاہر ہے کہ مجھ میں انسانی کمزوریاں بہ افراط پائی جاتی ہیں،وہ میری ذات کا مسئلہ ہے جس کا میں مسلسل احتساب بھی کرتاہوں اور کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہوں۔ اللہ سے ڈرتا ہوں اور جوابدہی کیخوف سے خوفزدہ بھی رہتا ہوں۔ لکھاری کی حیثیت سے پاکستانیت، قائداعظمؒ ، تحریک پاکستان، روحانیت، تصوف اوراولیاکرام وغیرہ وغیرہ میرے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ تجربات، مشاہدات اور معاشرتی رویئے بھی میری ترجیح ہوتے ہیں۔ سیاست اور حالات ِ حاضرہ پر بھی لکھتا ہوں اور کبھی کبھی طبیعت مائل ہو تو نیم طنزیہ و مزاحیہ لکھنے کی بھی مشق کرتا ہوں۔ پاکستانیت اور قائداعظمؒ وغیرہ وغیرہ پر میرے نظریات کی بنیادتحقیق پر ہے۔ الحمد للہ میرا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں کیونکہ میرا تعلق نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے، نہ لیڈر سے اور نہ ہی کسی مکتب ِ فکر سے۔ جو حضرات ان نظریات، تحقیق یا الفاظ سے اتفاق کرتے ہیں وہ دعا دیتے ہیں اور جنہیں یہ ناپسند ہوتے ہیں وہ مجھے جاہل قرار دیتے ہیں۔ مجھے حسن ظن ہے کہ دعا دینے والوں کی تعدادمخالفین سےبہت بڑی ہے۔ ہوسکتاہے کہ یہ محض میراواہمہ ہو۔ میں قائداعظمؒ کے تصورات و نظریات کا ذکر کروں یا تحریک پاکستان اور پاکستان کے محرکات کا، ہمیشہ حوالے دیتاہوں اور اپنی تحقیق کے شواہد پیش کرتاہوں۔ میں اپنی ذات کو اس قدر اہم نہیں سمجھتا کہ اس کا دفاع کرتا پھروں لیکن نظریات کو اہم سمجھتاہوں اور ان کا دفاع کرنا فرض جانتاہوں۔ میری مخالفین اور ناقدین سے فقط اتنی سی گزارش ہے کہ میرے حوالے سے ہوائی فتوے دینے کی بجائے یہ ثابت کیاکریں کہ میں نے کون سی بات غلط یا غیرمصدقہ لکھی، کون سی بات بلاتحقیق یا اپنی طرف سے لکھی۔یہ ایک صحت مندرویہ ہے جس سے سیکھنے سکھانے کا عمل مضبوط ہوتا ہے اور سچ یہ ہے کہ ساری زندگی سیکھنےکا عمل جاری رہتاہے اور اس حوالے سے انسان نہ کبھی مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی اسے اپنے آپکو حرف ِ آخر سمجھنا چاہئے۔