SMS: #KMC (space) message & send to 8001
جیسے سدا بہارگیت جب سنیں جائیں مزہ دیتے ہیں، اسی طرح دیہی زندگی کے کچھ لطیفے بھی (Evergreen) ہیں، خاص طور پر میراثی اور چوہدری سے منسوب واقعات کی چاشنی کبھی کم نہیں ہوتی۔ عمران خان کے انداز سیاست نے ان قدیم چٹکلوں کو ایسی حیات نو بخشی ہےکہ سنائے بغیر چارہ نہیں، چلیں آغاز کرتے ہیں۔ ایک بار گاؤں کا چوہدری بڑے شوق سے عربی گھوڑا خرید کرلایا۔ گھوڑا ایک نمبر کا اڑیل نکلا۔ بڑی کوشش کی سواری کی لیکن گھوڑے نے چوہدری کو قریب پھٹکنے نہ دیا۔ میراثی یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا ۔بولا۔ ’’چوہدری صاحب آپ کہیں تو میں اسے قابو کروں۔ چوہدری نے حیرت سے میراثی کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ ’’تمہیں گھڑ سواری آتی ہے؟‘‘ میراثی بولا۔ ’’یہ بھی کوئی کام ہے بھلا۔‘‘ میراثی نے چھلانگ لگائی اور گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ گھوڑے نے اصلیت دکھانا شروع کردی، ایک جھٹکے سے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا ۔میراثی گھوڑے کی پشت سے پھسلتا ہوا پیچھے چلاگیا۔گھوڑے نے پھریہی حرکت کی تو میراثی سرک کر کچھ اور پیچھے چلا گیا، گھوڑے کی تیسری کوشش میں میراثی زمین پر آگرا۔ چوہدری نے کہا ۔ ’’اوئے تم تو کہتے تھے گھڑ سواری آتی ہے ؟‘‘ میراثی نے جواب دیا۔ ’’چوہدری صاحب میں کبھی نہ گرتا، کم بخت گھوڑا ہی ختم ہوگیا تھا۔ ‘‘ عمران خان کو اسلام آباد بند کرنے میں ناکامی کا طعنہ دینا درست نہیں۔ اس بار حکومت اڑیل گھوڑا ثابت ہوئی، جس نے دھکے دے دے کر بے چارے گھڑ سوار کو بنی گالہ میں پھینک دیا ۔ ایک چوہدری میراثی کے ساتھ ڈیرے پر جا رہا تھا۔ راستے میں پانی سے بھری کھال آگئی۔ چوہدری نے کھال پار کرنے کے لئے چھلانگ لگائی لیکن عین بیچ میں جاگراپھر ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔ ’’اوہ میری جوانی ؟‘‘میراثی کہنے لگا۔ ’’چوہدری صاحب ویسے آپ جوانی میں بھی بیچ ہی میں گرا کرتے تھے۔‘‘کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ 2006 کے دھرنے کا حشر بھی 2014 کے دھرنے سے مختلف نہیں ہوگا ، شاید وہ عمران خان کے بیچ میں گرنے کے پرانے ریکارڈ سے واقف تھے۔ چوہدری اور میراثی کہیں جا رہے تھے۔چوہدری نے راستے میں مونگ پھلی خریدی اور کھانے لگا۔ اچانک مونگ پھلی کا ایک دانہ چوہدری کے ہاتھ سے پھسل کر نیچے جا گرا ۔میراثی نے اٹھایا اور منہ میں رکھ لیا۔ کچھ دیر بعد ایک اور دانہ زمین پر گر پڑا ۔ میراثی نے اس بار بھی اٹھایا اور منہ میں ڈال لیا۔ چوہدری نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو پُتر !ساڈے نال رہو گے تو یونہی عیاشی کرو گے ۔‘‘ عمران خان کو دھرنے کی جگہ یوم تشکر کا اعلان کرنے سے پہلے چاہئے تھا کہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو دو دانے مونگ پھلی ہی کے کھلا دیتے، کم از کم ان کے چہروں پر ’’ یوم تفکر‘‘ کے بجائے ’’ یوم تشکر‘‘ کے کچھ آثار تو نمودار ہوجاتے۔ایک چوہدری کو داستان گوئی کا بڑا شو ق تھالیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ بعض اوقات اتنی لمبی ہانکتے تھے کہ یقین کرنا مشکل ہوجاتا۔ انہوں نے میراثی کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ جیسے ہی ان کے جھوٹ پکڑے جانے کا شبہ ہو تو میراثی انہیں کہنی ماردیتا۔ ایک بار قصہ سناتے ہوئے چوہدری نے کہا۔ ’’میں نے ایک سانپ دیکھا جو پچاس گز لمبا تھا۔ ‘‘ میراثی نے کہنی ماری تو چوہدری صاحب ہوشیار ہوگئے۔ بولے۔ ’’جب میں تھوڑا سانپ کے قریب گیا تو اندازہ ہوا کہ چالیس گز کا ہوگا ۔ ‘‘ میراثی نے پھر کہنی ماری۔ چوہدری صاحب کہنے لگے۔ ’’جب میں سانپ کے سر پر پہنچ گیا تو پتا چلا کہ وہ تو بیس گز کا ہے ۔‘‘ میراثی نے پھر کہنی ماری۔ چوہدری صاحب نے تنگ آکر میراثی کی طرف دیکھا اور غصے سے بولے۔ ’’اب تو میں سانپ کے سر پر پہنچ گیا ہوں ، بیس گز سے کسی صورت کم نہیں کروں گا۔‘‘ نون لیگ والے پوچھتے پھریں پریڈ گراؤنڈ میں چھ ہزار کرسیوں پر عمران خان نے دس لاکھ لوگ کیسے بٹھا لئے؟کپتان نے دس لاکھ کا مجمع گن لیا ، یہ اب کم نہیں ہوسکتا۔ ایک چوہدری کسی کام سے میراثی کے گھر گیا ۔میراثی نے سوچا چوہدری کے گھر سے روز کھانا کھاتا ہوں آج چوہدری کو کھانا نہ پوچھا تو کیا عزت رہے گی ؟ بیوی سے بولا ۔ ’’جب میں آواز لگاؤں کھانا بن گیا ہے تو کہنا بن رہا ہے بس تھوڑی دیر اور،پھر کچھ دیر بعد خالی برتن صحن میں گرا دینا۔میں پوچھوں گاکیا ہوا تو کہنا مرغ بنایا تھا ہنڈیا ٹوٹ گئی ۔ میں کہوں گا کچھ اور ہے تو کہہ دینا دال بھی بنائی ہے ، کہیں تو وہ لے آؤں۔یوں چوہدری صاحب دال کھا لیں گے اوران پرمرغ پکانے کی دھاک بھی بیٹھ جائے گی ۔ ‘‘کوئی ایک گھنٹے بعد برتن گرنے کی آواز آئی، میراثی نے پوچھا۔’’خوش بختے!کیا ہوا ؟‘‘ رندھی ہوئی آواز آئی۔’’مٹھو کے ابا دال گر گئی ۔‘‘ اور آخر میں مشہور زمانہ چٹکلا، ایک گاؤں میں چوہدری کا انتقال ہوگیا۔ میراثی کا بیٹا اپنے باپ کے پاس آیا اور بولا۔ ’’ابا گاؤں کا نیا چوہدری کون بنے گا ؟‘‘ باپ نے کہا۔ ’’چوہدری کا چھوٹا بھائی۔‘‘ میراثی کے بیٹے نے پوچھا۔ ’’ابا چوہدری کا چھوٹا بھائی بھی مر جائے تو اگلا چوہدری کون ہوگا؟‘‘ باپ نے جواب دیا۔ ’’پھر اس کا کوئی بیٹا بن جائے گا۔‘‘ میراثی کے بیٹے کو تسلی نہ ہوئی پھر بولا۔ ’’ابا اگر وہ بھی مر جائے تو؟‘‘اس بار میراثی کے کان کھڑے ہوئے، اس نے بیٹے کو گھور کر دیکھا، پھر زور دے کر بولا۔ ’’پُتر پورا پنڈ وی مر جائے، توں چوہدری نہیں بن سکدا۔‘‘
.