• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی جمہوری دور حکومت میں منتخب بلدیاتی ادارے بھی کام کریں گے ۔ اس تحریر کی اشاعت تک پنجاب اور سندھ میں پہلے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوچکا ہو گا ۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پہلے ہی بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ پنجاب اور سندھ میں دوسرے اور تیسرے مرحلے کے انتخابات بھی شیڈول کے مطابق ہو جائیں گے ۔ اس طرح ملک بھر میں منتخب مقامی حکومتیں فعال ہو جائیں گی اور یہ تاثر ختم ہو جائے گا کہ سیاسی حکومتیں مقامی حکومتوں کے نظام کو قبول نہیں کرتیں لیکن اس کے ساتھ یہ سوال ضرور پیدا ہو گا کہ جمہوری ادوار میں مقامی حکومتیں کس قدر بااختیار ہیں ۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور جمہوری ممالک میں مقامی حکومتوں کا نظام بہت مضبوط ہوتا ہے اور مقامی حکومتیں انتہائی بااختیار ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں حقیقی حکمراں اشرافیہ نے جمہوریت کو نہیں پنپنے دیا ۔ غیر جمہوری حکومتوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے انتخابات کی ہمیشہ مخالفت کی لیکن انہوں نے بلدیاتی اداروں ( مقامی حکومتوں ) کے انتخابات کرائے ۔ یہ انتخابات اس لئے نہیں کرائے گئے تھے کہ وہ حکمراں جمہوریت چاہتے تھے بلکہ انہوں نے مقامی حکومتوں کو اپنے غیر جمہوری مقاصد کے لئے استعمال کیا ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ کیا اور مقامی حکومتوں کے منتخب عہدیداروں کو اپنے صدارتی انتخاب کے لئے الیکٹورل کالج کے طور پر استعمال کیا ۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق نے بھی بلدیاتی اداروں کے ذریعے متبادل سیاسی قیادت پیدا کرنے اور پہلے سے موجود حقیقی سیاسی قیادت کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں مقامی حکومتوں کا جو نظام نافذ کیا ، اس میں وفاقی اکائیوں یعنی صوبوں کو غیر موثر بنا دیا گیا ۔ اس پر چھوٹے صوبوں نے زبردست احتجاج کیا ۔ ان حکمرانوں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت نہ صرف پاکستان میں سیاسی عمل کو غیر موثر بنانے کی کوشش کی بلکہ پاکستان کے وفاقی پارلیمانی نظام کو بھی ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے ۔ ان اسباب کی وجہ سے جمہوری اور سیاسی قوتوں نے بلدیاتی اداروں یا مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنے خلاف آمریت کے ہتھکنڈے کے طور پر تسلیم کیا اور وہ مقامی حکومتوں کے نظام سے شاکی رہیں ۔ بدقسمتی سے یہ صورت حال پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات کی وجہ سے پیدا ہوئی ۔ اب وہ حالات نہیں رہے ہیں ۔ سیاسی قوتوں کو چاہئے کہ وہ نہ صرف مقامی حکومتوں کے نظام کو بہتر طور پر چلائیں بلکہ انہیں زیادہ سے زیادہ بااختیار بنائیں کیونکہ مقامی حکومتوں کے بغیر نچلی سطح پر لوگوں کے مسائل حل نہیں ہو سکتے ۔
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چاروں صوبوں میں بلدیاتی قوانین میں یکسانیت نہیں ہے اور بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور فرائض میں بھی بہت فرق ہے ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا مقامی حکومتوں کا نظام ختم ہونے کے بعد 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو یہ اختیار حاصل ہو گیا تھا کہ وہ مقامی حکومتوں کے حوالے سے خود قانون سازی کریں ۔ قانون سازی کے عمل کے دوران چاروں صوبائی حکومتوں کے مابین رابطہ بھی رہا اور مشاورت بھی ہوتی رہی لیکن چاروں صوبوں کے بلدیاتی قوانین ( لوکل گورنمنٹ ایکٹس ) میں یکسانیت پیدا نہیں ہوسکی ۔ سندھ میں قانون سازی کا عمل بہت تکلیف دہ مراحل سے گزرا ۔ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اپنی اتحادی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی مشاورت سے سندھ میں ایک ایسا نیا بلدیاتی نظام رائج کیا ، جس پر سندھ کی دیگر سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے زبردست احتجاج کیا اور اسے ’’ دہرا نظام ‘‘ قرار دیا ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ کراچی اور حیدر آباد کے لئے الگ نظام ہے جبکہ سندھ کے دیگر اضلاع کے لئے دوسرا نظام ہے ۔ ان جماعتوں کے احتجاج نے پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچایا اور پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے دباؤ میں آکر سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کی ۔ موجودہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ پر ایم کیو ایم کے تحفظات اب بھی موجود ہیں اور پیپلز پارٹی کو مخالفین کی تنقید کا اب بھی سامنا ہے ۔ بہرحال چاروں صوبوں کے بلدیاتی قوانین میں یکسانیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر صوبے کے اپنے حالات کے مطابق قوانین میں تھوڑا بہت فرق ہوسکتا ہے لیکن بلدیاتی اداروں کا ڈھانچہ یکساں ہونا چاہئے ۔ سیاسی جماعتوں کو اس مسئلے پر فوراً کام کرنا چاہئے ۔
دوسرا اہم مسئلہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور فرائض کے حوالے سے ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو اب بلدیاتی اداروں یا مقامی حکومتوں سے خائف نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اب جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے ہیں اور ان ہی سیاسی جماعتوں کے لوگ منتخب ہو کر آئے ہیں ۔ بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندے اب کسی آمر کے آلہ کار نہیں ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کا اپنا نیا کیڈر ہیں ۔ بلدیاتی اداروں کو زیادہ سے زیادہ مالیاتی اختیارات دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ نچلی سطح پر لوگوں کے مسائل حل کر سکیں ۔ بلدیاتی اداروں کے بجٹ میں بھی اضافے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک کے تمام بلدیاتی ادارے اپنے ملازمین کی تنخواہیں بھی پوری نہیں کرسکتے۔ باقی کاموں کے لئے وہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف دیکھتے ہیں ۔ ان کے وسائل میں اضافے سے وہ نہ صرف بلدیاتی امورانجام دینے میں زیادہ موثر ہو جائیں گے بلکہ بہتر منصوبہ بندی بھی کر سکیں گے ۔ پہلی مرتبہ جمہوری حکومتوں کے ساتھ ساتھ منتخب مقامی حکومتیں کام کررہی ہیں اور اس تجربے کو ایک شاندار تجربے کے طور پر یاد رکھا جانا چاہئے ۔ ہمارے دیہات ، قصبوں اور شہروں کی حالت بہت خراب ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں شہری زندگی کا شعور ہی نہیں ہے ۔ لوگ شہری سہولتوں سے محروم ہیں ۔ جمہوری حکومتیں مقامی حکومتوں کو طاقت ور اور بااختیار بنا کر ایک قابل فخر مثال قائم کرسکتی ہیں ۔
تازہ ترین