• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانی سر سے اونچا ہوتا جا رہا ہے....خلیل احمد نینی تال والا

ہم تقریباً 25تیس افراد جن میں صنعتکار ، اخباری نمائندے ، بیوروکریٹس ، بلڈرز ، عوامی نمائندے ، سابق فوجی ، دکاندار اور کبھی کبھی پاکستان میں مقیم غیرملکی سفارتکار اور سیاستدان ہر ماہ دوپہر کے کھانے میں شریک ہوتے ہیں دوپہر کا کھانا ٹھیک2 بجے شروع ہوتا ہے اور تقریباً 4 بجے تک اختتام پذیر ہوتا ہے۔ یہ کھانا عام طورپر کسی عوامی ریسٹورنٹ میں رکھا جاتا ہے اور کبھی کبھی 5/اسٹار ہوٹل میں بھی ہوتا ہے اس ضیافت میں ملک کی صورت حال کا جائزہ لینا اور عوام کیا سوچ رہے ہیں ان پر ہر شخص بے لاگ تبصرہ کرتا ہے ۔ رمضان المبارک کا مہینہ گزر چکا تھا لہٰذا دوپہر کا کھانا اس مرتبہ ہمارے میزبان نے ایک 5/اسٹار ہوٹل میں رکھا ،2 بجے تمام ریسٹورنٹ تقریباً بھرے ہوتے ہیں اور یہ پیک ٹائم بھی ہوتا ہے لہٰذا احتیاطاً ہم 25تیس کرسیوں کی اسپیشل ٹیبل بک کرواتے ہیں کھانے کا آرڈر پہلے ہی لکھوا دیا جاتا ہے دورانِ کھانا اور بعد میں بھی گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ جانے سے پہلے اگلے میزبان کا بھی اعلان کر دیا جاتا ہے یہ خوش گپیاں کئی سال سے جاری ہیں اس انتظام اور اطلاع کا کام صحافی مجید عباسی بہت خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں وقت مقررہ پر جب راقم ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تو پہلے تو اچھی طرح تلاشی کے مراحل ،کار کی باہر پارکنگ کا مسئلہ حل کر کے ریسپشن سے گزرتے ہوئے پہلے کی طرح کوئی گہما گہمی نہیں تھی قطار در قطار ہوٹل کے ملازمین ہی دکھائی دیئے جن کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا بڑی گرم جوشی سے ویلکم کر رہے تھے ۔ریسٹورنٹ میں صرف 2/افراد ہمارے آ چکے تھے جن میں ایک میزبان اور ایک ہمارے منتظم مجید عباسی صاحب تھے پورے ریسٹورنٹ میں صرف دو ٹیبلوں پر دیگر 5/افراد موجود تھے ۔سوچا کسی غلط جگہ پر تو نہیں آ گیا۔ ریسٹورنٹ کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا کہ مجید عباسی کی پاٹ دار آواز آئی خلیل بھائی آگے آ جائیں ہماری ٹیبل بالکل آخر میں لگائی گئی ہے ۔ڈھائی بجے تک بہ مشکل 5/افراد جمع ہو سکے جو بالکل خلاف توقع بات تھی سب کو موبائل سے دوبارہ پوچھا جا رہا تھا ۔ ہر شخص کوئی بہانہ کر رہا تھا ۔خود ریسٹورنٹ اسی طرح بھاں بھاں کر رہا تھا ۔میزبان نے توہاً کرہاً کھانا لانے کا آرڈر دیا ۔کھانا بہت زیادہ اور افراد چند ہی تھے اور آخر تک صرف دو افراد کا اضافہ ہوا ۔ان 7/افراد میں 5/افراد وہ تھے جو عمرہ کی سعادت حاصل کر کے عید کے دن پاکستان لوٹے تھے بعد میں انکشاف ہوا اسلام آباد ہوٹل کے حادثے کے بعد تمام فائیو اسٹار ہوٹل اور عوامی ریسٹورنٹ میں عوام جانے سے اجتناب کر رہے ہیں کہیں وہ دہشت گردی کی لپیٹ میں نہ آ جائیں ۔ہم کیونکہ عمرہ سے لوٹے تھے تو اتنے متاثر نہیں تھے ہوٹل کے اسٹاف نے بھی گواہی دی ہمارا کاروبار بالکل ختم ہو چکا ہے اور ہوٹل میں 7سے 10فیصد افراد ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ایک ماہ سے ہوٹل بزنس تباہ ہو چکا ہے جو کمرہ 15ہزار میں نہیں ملتا تھا آج دو ڈھائی ہزار میں ہوٹل والے دینے کو تیار بیٹھے ہیں ۔اس وجہ سے 25تیس افراد میں سے صرف 7/افراد ہی آئے ہیں اور طے پایا کہ اگلا کھانا گھر پر رکھا جائے چاہے اس کیلئے میزبان کی گھروالی پر پکانے اور کھلانے کا بوجھ پڑے وہ ناراضی مول لینا آسان ہے بہ نسبت کھلے عام ریسٹورنٹ میں جا کراپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے بہتر ہے تا وقت حالات نارمل نہیں ہو جاتے ۔کھانے کے دوران ہر شخص دہشت گردی ، مہنگائی ، آٹے کی قلت ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے لے کر ڈالر اور سونے کی خریداری جیسے موضوعات پر گفتگو کر رہا تھا اور ایک عجیب سی کیفیت جو پہلے کبھی محسوس نہیں کی گئی تھی آج ہر عاقل ، بالغ شخص محسوس کر رہا ہے جیسے وہ بالکل غیر محفوظ ہو چکا ہے ۔اخبارات اور ٹی وی چینل بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ایسے میں روز ایک نئی افواہ پھیلائی جا رہی ہے کبھی کہیں جھوٹے بم کی اطلاع تو کہیں کسی بینک کے دیوالیہ کی خبریں قوم کو کوفت اور عذاب میں مبتلا کر رہی ہے ۔ آج صدرِ مملکت آصف زرداری کا بیان کہ پاکستان کوئی لمیٹیڈ کمپنی نہیں ہے جو دیوالیہ ہو جائے گا، شاید کوئی تسلی دے سکے مگر لوگ اب وعدوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ چکے ہیں تاجر اور صنعت کار پہلے ہی اپنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں ۔ اوپر سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اب 50فیصد اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط ، ڈیزل اور پیٹرول دنیا بھر میں آدھی قیمتوں پر آ جانے کے باوجود پیٹرول پر صرف 5روپے کی کمی اور اس کی کسر ڈیزل میں بڑھا کر وصول کرنا قوم کے ساتھ مذاق کے سواکچھ نہیں ہے ۔جب ایک افواہ سے ڈالر 82روپے تک جا سکتا ہے تو آئندہ اس کی کمی کا کوئی راستہ نہیں رہتا جبکہ دوسرے ہی دن حکومت انٹر بینک ریٹ خود ہی بڑھا دیتی ہے۔ ایک خفیہ ذرائع سے معلوم ہوا کہ حکومت نے جن 8بلین ڈالر کے ذخیرہ کی بات کی اس میں غیر ملکی بینکوں میں پڑے ہوئے غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ کو بھی شامل کر لیا ہے ہمارے نئے مشیر خزانہ امریکہ سے مدد لانے گئے ہیں ۔صدر صاحب واپس لوٹ چکے ہیں ۔ آج ہمارے یو این او کے نمائندے حسین ہارون نے فرمایا کہ صدر صاحب نے دورہ امریکہ میں صدر بش سے کوئی امداد کی بات نہیں کی ۔ آج سے 10بارہ سال پہلے انڈونیشیا کی کرنسی ایک ڈالر کے عوض ڈھائی ہزار سے جب بڑھ کر سولہ ہزار تک جا پہنچی تو ملک کے 300بینک دیوالیہ ہو گئے ۔ نوٹ کریں کہ 300بینک نہ کہ 300شاخیں حکومت طلب کے سامنے گھٹنے ٹیک گئی ۔آئی ایم ایف اور دیگر امدادی ادارے منہ دیکھتے رہ گئے آج صرف ڈالرز اور سونا محفوظ سمجھا جا رہا ہے اس لیے سب اس کی طرف بھاگ رہے ہیں یہ سلسلہ جاری رہا تو دونوں ہی ناپید ہو جائیں گے ۔اس وقت ہمارے حکمرانوں کے پاس کونسا راستہ رہ جائے گا ۔کل تک پراپرٹی ہی محفوظ سمجھی جاتی تھیں اسٹاک ایکسچیج کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے ۔پراپرٹیوں کا خریدار کوئی نہیں ہے بینکوں کے لاکرز پر تک اعتبار اُٹھ چکا ہے ۔ سیاستدان اور وکلاء اپنی اپنی بولیاں سنا رہے ہیں ۔سامانِ تعیش اور غیر ضروری اشیاء پر آئی ایم ایف پابندیاں نہیں لگانے دے رہا ہے ۔ خود امریکہ اور یورپ اپنی اپنی اقتصادی مشکلات میں گھر چکے ہیں ۔افغانستان اور عراق پوری دنیا کی معیشت تباہ کر چکے ہیں ابھی امریکی عوام کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔جب عوام کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہوتا تو کریڈیٹ کارڈ جو ان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کہاں سے لائیں گے وہ ڈالرز ۔یہ تباہی اب آنے والی ہے ہمارا کون ساتھ دے گا ۔ہم تو آج بھی ان کے کہنے پر اپنے ہی علاقے اور اپنے ہی بھائیوں سے جنگ کر رہے ہیں اوپر سے ہمیں دہشت گردی روکنے میں ناکامی کا طعنہ بھی دیا جا رہا ہے اور خود بات چیت کرنے کا مشورہ افغانستان کو دیا جا رہا ہے ۔ ہم طالبان سے کیوں بات چیت نہیں کر سکتے وہ اس میں جتنی دیر ہو گی یہ اتنا ہی گمبھیر ہوتا جائے گا ۔ اسلام آباد سے وہ نکل کر پنجاب میں آ چکے ہیں سندھ کتنی دور ہے وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے ہمارے فوجی بھائی بھی اس میں ناحق مارے جا رہے ہیں عوام کا تو کہنا ہی کیا ہے وہ تو بھیڑ بکریوں کی طرح مر رہے ہیں پانی سر سے اونچا ہوتا جا رہا ہے عوام آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔
تازہ ترین