• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خان سے دو ،ڈھائی عشروں کی دوستی کا دعویدار کالم نگار/تجزیہ کار متعدد بار لکھ چکا، ٹی وی پر اپنے تجزیوں میں کہہ چکا کہ لاتعداد خوبیوں کے حامل اسکے ممدوح میں دو کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں، ایک یہ کہ وہ سیاسی سوچ نہیں رکھتا اور دوسرا یہ کہ مردم شناسی میں کمزور ہے۔ زیادہ دِن نہیں ہوئے ، اس نے پھر لکھا،’’مردم شناسی نام کی کوئی چیز کپتان میں نہیں پائی جاتی‘‘۔ پشاور کی پریس کانفرنس میں اخبار نویس نے بھی خان کی مردم شناسی ہی کو Question کیا تھا۔ مان لیا کہ الفاظ کے انتخاب میں اس نے احتیاط نہ کی تھی لیکن اس پر خان کا ردعمل ، کیا ایک قومی لیڈر کو زیبا تھا؟
ریحام کو طلاق کے بعد وہ پہلی بار اخبار نویسوں کے رُوبرو تھا، تو اس حوالے سے سوال بلکہ سوالات فطری تھے۔( شیریں مزاری صاحبہ تو خود ایک انگریزی اخبار کی ایڈیٹر رہیں، کیا اُنہوں نے بھی اپنے لیڈر کو نہیں بتایا تھا کہ وہ اخبار نویسوں سے اس طرح کے سوالات کیلئے تیار رہیں)۔ خان کی اپنی دوسری اہلیہ سے بھی نہیں نبھ سکی تھی، اس پر صدمے اور شدید صدمے کی کیفیت فطری تھی لیکن اس حوالے سے میڈیا کیلئے سوالات کا وقت بھی یہی تھا، ’’خبر‘‘ اور ’’تاریخ‘‘ میں یہی فرق ہوتا ہے۔
عظیم تر ہے عبادت شباب کی لیکن
یہی گناہ کا موسم ہے کیا کیا جائے
خان کیلئے اس نفسیاتی بحران میں خود پر قابوپانا مشکل تھا تو Public appearance سے گریز کرتا، اخبار نویسوں کے رُوبرو نہ ہوتا۔ دھرنے کے دِنوں میں ، نوازشریف کے استعفے کیلئے اپنی بے قراری کا اظہار کرتے ہوئے اس نے کہا تھا، فاسٹ بولر میں صبر نہیں ہوتا لیکن اِسے کرکٹ چھوڑے اب تیئس سال ہوچکے۔ اس کی سیاسی جماعت انیس سال کی ہوگئی۔ کیا اب بھی اِس سے ایک ذمہ دار سیاسی لیڈر کے رویّے کی توقع بے جا ہے؟ اخبار نویس سے غلطی ہوگئی تھی، وہ احتیاط اور آداب کے تقاضے ملحوظ نہ رکھ پایا تو خان بہتر رویے کا مظاہرہ کرتا۔ سوال کرنا، اخبار نویس کا حق تھا(ریحام سے علیحدگی کے حوالے سے اخبارات کے قارئین ،ٹی وی کے ناظرین ان سوالات کا جواب چاہتے ہیں)اسی طرح جواب نہ دینا خان کا حق تھا، وہ ’’نوکمنٹس‘‘ کہہ کے ٹال دیتالیکن وہ توہین پر اُتر آیا، یاد دِلانے لگا کہ ہر معاشرے کی کوئی تہذیب ہوتی ہے، کوئی آداب ہوتے ہیں اور پھر وہ اخبار نویس سے سیدھا کہہ گئے، تمہیں شرم آنی چاہئے، تم نے مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش میں ، اپنی اوقات دِکھا دی۔ اخبار نویس نے بات کو آگے نہ بڑھایا، اس کے ساتھیوں نے بھی خان کے اس ردعمل پر، جوابی ردعمل سے گریز کیا۔ ورنہ وہ اِتنا تو کرہی سکتے تھے کہ الجھے بغیر، خاموشی سے اُٹھ آتے۔
خان اور میڈیا میں اس کے دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ اس کی پرسنل لائف ہے، جس میں مداخلت کا کسی کو کیا حق؟ لیکن معاف کیجئے کہ کسی فرد کی، کسی عام شہری کی پرسنل لائف تو ہوتی ہے لیکن ’’لیڈر‘‘ کی کوئی پرسنل لائف نہیں ہوتی کہ وہ پبلک پراپرٹی ہوتا ہے۔ وہ قیادت کا دعویدار(اور اطاعت کا طلب گار) ہوتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار اسے سونپ دیں تو کیا لوگوں کا یہ حق نہیں کہ وہ اس کے مزاج، اس کے طور اطوار، اس کی زندگی کی اونچ نیچ سے آگاہ ہوں۔ مغرب کی فری سوسائٹی میں ، جہاں عام آدمی کیلئے بہت سی باتیں روا ہوتی ہیں، ’’لیڈر‘‘ کیلئے انہیں حرام سمجھا جاتا ہے۔ وہاں لیڈر کی ذرا سی لغزش ، معمولی سی فروگزاشت بھی پہاڑ جیسی غلطی تصور کی جاتی ہے۔رچرڈ نکسن کافہم و تدبر کے حوالے سے امریکہ کے گنے چنے صدور میں شمار ہوتا تھا، پیکنگ (موجودہ بیجنگ) سے واشنگٹن کا رابطہ، اسکا جرأت مندانہ، تاریخی اقدام تھا لیکن واٹر گیٹ کے حوالے سے جھوٹ اِسے لے بیٹھا(اس کے بقول واٹر گیٹ کے معاملے سے وہ لاعلم تھا) لیونسکی کے معاملے پر کلنٹن جس کڑے احتساب سے گزرا، وہ بھی زیادہ دیر کی بات نہیں(وہ خوش قسمت تھا کہ اس کی صدارت بچ گئی) ۔ امریکہ میں جہاں باضابطہ فیملی لائف کا تصور فرسودہ ہوچکا۔ جہاں شادی کے بغیر بچے پیدا کرنا(اور پھر باپ کا غائب ہوجانا) کوئی جرم نہیں رہا، لیڈر کی فیملی لائف اب بھی اہمیت رکھتی ہے۔ ہیلری اس لیے بھی احترام کے قابل سمجھی گئی کہ کلنٹن کو درپیش لیونسکی کرائسس کے دوران وہ اپنے خاوند کے ساتھ کھڑی رہی۔ کلنٹن اس سے بے وفائی کا مرتکب ہواتھا، لیکن وہ اس کی وفادار رہی، حالانکہ لیونسکی افیئر ہیلری کیلئے کافی جواز تھا کہ وہ اس سے علیحدگی اختیار کرلیتی۔
خان اسلامی تاریخ کو اپنے لیے سورس آف انسپائریشن قرار دیتا ہے۔ جہاں امیرالمومنین سے بھی سرِ عام یہ سوال کیا جاسکتا تھا کہ اس کے کرتے کیلئے کپڑا کہاں سے آیا؟ جی ہاں!ہر معاشرے کے کچھ آداب ہوتے ہیں، کوئی تہذیب ہوتی ہے۔ دُنیا کا کوئی بھی معاشرہ مرد کی نسبت عورت کے حوالے سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔ اسلامی(اور مشرقی) معاشرے میں تو یہ حساسیت اور بھی زیادہ ہوتی ہے ، کیا کپتان اپنے سوشل میڈیا کو بھی اس حوالے سے احساس دِلائے گااور اب ریحام بھی ایک خاتون ہے، تین بچوں کی ماں، اور خود خان کی سابق اہلیہ ، اس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ہی نہیں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی کردار کشی کی کیسی مہم چلائی جارہی ہے؟ ہمیں حیرت ہوئی، دھرنا مہم کے دوران اور اس کے بعد بھی ، میڈیا میں خان کی وکالت کرنے والا، ایک ریٹائرڈ عسکری دانشور(اور ہمارا دوست) گزشتہ روز ایک مارننگ شو میں دُور کی کوڑی لایا، ڈھائی تین سال پہلے کا "Get Imran Plan"۔ ریحام کی پاکستان آمد،حیلوں بہانوں سے خان کی قربت اور پھر شادی، اسی خفیہ پلان کا (پہلا) حصہ تھی، اس کے بعد پلان’’بی‘‘ تھاکہ راز فاش ہوگیا۔
اِدھر ریحام کا رویّہ کیا تھا؟ وہ انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس کے آخری سیشن کیلئے مانچسٹر پہنچ گئیں جہاں انہیں تندوتیز سوالات کا سامنا تھا۔ ایک خاتون اینکر نے تو یہ سوال بھی کرڈالا، آپ خان پر ہاتھ بھی اُٹھا لیتی تھیں؟ کسی خاتون کیلئے یہ بہت بڑا الزام تھا لیکن ریحام اس پر بھی بدمزہ نہ ہوئی اور مسکرا کر آگے بڑھ گئی۔
اس میں کیا اختلاف کہ شادی ذاتی معاملہ ہوتا ہے اور شادی شدہ زندگی ، پرسنل لائف لیکن خود خان کو بھی احساس تھا کہ کسی Celebrity کی ، کسی لیڈر کی شادی کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ جمائما سے شادی اور پھر طلاق کے معاملات پر اس نے کئی انٹرویو دیئے(جس میں اپنی سابق اہلیہ اور اپنے دو بچوں کی ماں کے متعلق ادب و احترام کا رویہ برقرار رکھا)2012 ءکے اوائل میں منظرعام پر آنے والی اپنی کتاب میں خان نے اس شادی پر پورا باب باندھاجس کا آغاز اِن الفاظ سے کیا، جو 18سال کی عمر میں پہلی باراسکی انگلینڈ روانگی کے وقت ماں نے اس سے کہے تھے ’’واپسی پر اپنے ساتھ کوئی میم نہ لیتے آنا‘‘۔ یہ باب ایک لمبی کہانی ہے ، جس میں خان شریکِ حیات کیلئے اپنے معیار کا ذکر بھی کرتا، 25سال سے کم عمر خاتون میرے حساب سے کم عمر ہوتی کہ زندگی کا اسے بہت کم تجربہ ہوتاہے‘‘۔ (یہ الگ بات کہ اس نے 43کی عمر میں 18سالہ جمائما سے شادی کر لی)۔
ریحام کے ساتھ شادی بھی ایک بڑا ایونٹ تھا، جس کی کوریج کیلئے خان نے میڈیا کو پوری طرح facilitate کیا بلکہ دوسری شادی کیلئے بےقراری کا اظہار تو اس نے کنٹینر پر بھی کردیا تھا۔ اس کے بعد بھی میڈیا سے انٹرویوز میں، خان اور ریحام دونوں اپنی شادی شدہ زندگی کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے رہے کہ اس کے بعد خان کی زندگی ، اس کے طور اطوار اور بنی گالہ محل کے ماحول میں کیا خوشگوار تبدیلیاں آئیں۔ ہمیں احساس ہے کہ ریحام سے علیحدگی خان کیلئے گہرے دُکھ کا معاملہ ہے۔ غضب خدا کا ، اِسے فرزند لال حویلی سے یہ الفاظ بھی سننا تھے، بڑھاپے کی شادی اور بینک کی نوکری مشکل کام ہوتا ہے، یہ سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے۔
تازہ ترین