• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اور پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے ۔ دونوں صوبوں میں دونوں سیاسی جماعتوں کے حریف ان کے قریب بھی نہیں ہیں ۔ انتخابات سے پہلے جو تجزیے کئے گئے تھے ، وہ بھی غلط ثابت ہوئے اور انتخابی نتائج کے بارے میں جو اندازے لگائے گئے تھے ، وہ بھی درست ثابت نہ ہو سکے ۔ اب دونوں سیاسی جماعتوں کی کامیابی کے بارے میں جو تجزیے کئے جا رہے ہیں ، وہ بھی انہی خطوط پر ہیں ، جن کا تعین کوئی اور کرتا ہے اور ہم تجزیہ کرنے والے انہی خطوط پر اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان تجزیوں کا استدلال بہت کمزور ہوتا ہے۔
اکثر تجزیہ کاروں کا خیال یہ ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اپنی حکومت کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے کامیابی ملی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے ہی ووٹ ملتے ہیں تو پھر سندھ میں پیپلز پارٹی کو کامیابی کیوں حاصل ہوئی ؟ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے میڈیا میں کوئی اچھی باتیں نہیں کی جاتیں اور ٹی وی اینکرز ، کالم نگار اور پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین جب بھی سندھ حکومت کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو وہ یہ بات شروع ہی کرپشن اور بیڈ گورننس سے کرتے ہیں ۔ سندھ حکومت کے خلاف جتنا پروپیگنڈا ہوا ، اس سے یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ سندھ میں بیڈ گورننس ہے ۔ حقیقت چاہے کچھ بھی ہو لیکن تاثر حقیقت سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں حکومت کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے ووٹ ملے ، وہ اس بات کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکتے کہ پیپلز پارٹی کو سندھ میں کیوں کامیابی حاصل ہوئی ۔ یہی لوگ انتخابات سے پہلے اپنی اسی دلیل کی بنیاد پر پیشگوئی کر رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کو عبرتناک شکست ہو گی ۔ اگر حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر لوگ سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے تو مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کو سندھ میں ووٹ ملتے کیونکہ ان کی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومتوں کے بارے میں میڈیا میں اچھا تاثر پایا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ پیپلز پارٹی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں پہلے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکتی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی کارکردگی کو لوگ اس نظر سے نہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں ، جس نظر سے میڈیا دکھا رہا ہوتا ہے ۔ حکومت کی کارکردگی پر یقیناً لوگوں کی نظر ہوتی ہے لیکن لوگ چیزوں کو اپنے طور پر دیکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دیگر عوامل بھی ہوتے ہیں ۔ عوام کی اجتماعی دانش کا ادراک کرنا اور سیاست پر اثر انداز ہونے والی غیر مرئی قوتوں کے منصوبوں کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں وہی سیاسی جماعت کامیاب ہوتی ہے ، جو صوبے میں برسراقتدار ہوتی ہے ۔ اس کے لئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں عوامی پذیرائی نہیں ملی تھی ۔ یہ دلیل کسی حد تک درست ہے لیکن مکمل طور پر درست نہیں ہے ۔ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کو اسی تناسب سے بلدیاتی انتخابات میں نشستیں نہیں ملی ہیں ، جس تناسب سے ان کے پاس اس صوبے کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہیں ۔ اسی طرح بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو بھی عام انتخابات 2013ء کے تناسب سے بلدیاتی انتخابات میں نشستیں نہیں ملی ہیں ۔ سندھ میں مسلم لیگ (فنکشنل) حکومت میں نہیں ہے ، اس کے باوجود اسے ان علاقوں میں نشستیں ملی ہیں ، جہاں سے اس نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتی تھیں ۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) بھی حکومت میں نہیں ہے اور ایم کیو ایم والے یہ شکایت بھی کررہے ہیں کہ کراچی کے ٹارگٹڈ آپریشن میں سب سے زیادہ نشانہ ان کو بنایا جارہا ہے ۔ اس کے باوجود یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی ۔ جو سیاسی جماعتیں مرکز ، پنجاب ، سندھ اور خیبرپختونخوا میں حکومتوں میں ہیں ، وہ کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے لئے کوئی بڑا چیلنج نہیں بن رہیں ۔ ان حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عام انتخابات یا بلدیاتی انتخابات میں حکمران سیاسی جماعت کی کامیابی ضروری نہیں ہوتی ہے ۔
پاکستان میں انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کی کامیابی کے عوامل اور اسباب کچھ اور ہیں ، جنہیں سمجھنے کے لئے پاکستان کی سیاسی تاریخ اور حقیقی تضادات کا ادراک لازمی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کا منشور ، عوام سے ان کے رابطوں اور حکومتوں میں ان کی کارکردگی جیسے عوامل بھی کسی حد تک انتخابات پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ عوام کا اجتماعی سیاسی شعور بھی کسی حد تک اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ملک کو کس طرف لے جانا ہے لیکن پاکستان میں غیر سیاسی قوتوں کی منصوبہ بندی سب سے زیادہ اثرانداز ہوتی ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 ء میں ہونے والے عام انتخابات میں جو نتائج پاکستان کی غیر مرئی قوتوں کےلئے موزوں تھے۔ ، وہی نتائج آئے اور اسی طرح 2013ء کے عام انتخابات کے بعد جو نتائج آئے ، ان کا تجزیہ کرنے سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ کوئی پس پردہ منصوبہ بندی ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے بھی یہ تاثر مل رہا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں ایک ایک صوبے تک محدود ہیں اور انہیں اپنی حد میں رہنا چاہئے ۔ یہ صورت حال اس وقت تک تبدیل نہیں ہو گی اور انتخابی نتائج کے بارے میں درست اور سائنسی تجزیہ اس وقت تک نہیں ہو سکے گا ، جب تک پاکستان میں انتخابی عمل مکمل طور پر شفاف نہیں بنایا جائے گا اور سیاسی جماعتیں روایتی نعروں اور ایک دوسرے کی بلا جواز مخالفت کی بجائے آج کے بڑے ایشوز پر جرات مندانہ موقف اختیار نہیں کریں گی ۔ پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے ۔ کوئی سیاسی جماعت اس پر ٹھوس اور جرات مندانہ حکمت عملی اختیار نہیں کررہی۔ اس لئے ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کی سیاست ہے اور انتخابی نتائج کا کوئی منطقی اور مدلل تجزیہ نہیں ہو سکتا ۔
تازہ ترین