اس دنیا میں کوئی انسان مکمل نہیں۔ قوموں کی تقدیریں بدلنے والے بڑے بڑے لوگوں کی ذاتی زندگیاں محرومیوں اور ناکامیوں کے دکھوں سے بھری نظر آتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر بڑا سیاسی لیڈر، بڑا فنکار، شاعر، ادیب اور صحافی اپنی ذاتی زندگی میں ایک کامیاب شوہر یا اچھا باپ بھی ثابت ہو۔ بڑے لوگ بڑے بڑے مقاصد کی تکمیل کیلئے بھاگ دوڑ میں بہت سی چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں۔ یہ غلطیاں ان کی ذاتی زندگی میں ایسی ناکامیوں کا باعث بن جاتی ہیں جنہیں ان کے مخالفین کردار کشی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بڑے لوگوں کی ذاتی زندگی کے بارے میں جھوٹ تراشنا اور ان کے ذاتی دکھوں کو تماشا بنا کر لذت حاصل کرنا چھوٹے لوگوں کی پرانی عادت ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی بھی بحران سے دو چار رہی۔ انہیں اپنی زندگی میں اور پھر موت کے بعد کئی چھوٹے لوگوں کی دشنام طرازیوں کا سامنا رہا۔ انکے کردار پر حملے کئے گئے یہاں تک کہ ان پر ایک طوائف کے قتل کا الزام تک لگادیا گیا۔ ان کی ازدواجی زندگی کے بحران کو ان کی کردار کشی کی بنیاد بنانے کی کوشش کی گئی اور اس کوشش میں صرف کچھ پرائے نہیں بلکہ کچھ اپنے بھی شامل تھے۔
علامہ اقبال کی تین شادیاں ہوئی تھیں۔پہلی شادی کریم بی بی سے ہوئی جن کا تعلق گجرات سے تھا۔ شادی کے وقت علامہ اقبال کی عمر صرف سولہ سال تھی اور کریم بی بی کی عمر انیس سال تھی۔ دوسری بیوی کا نام مختار بیگم تھا جن کا تعلق جالندھر کے نولکھا خاندان سے تھا۔ ان کی تیسری بیوی کا نام سردار بیگم تھا جو موچی دروازے لاہور کے ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ پہلی بیوی کے ساتھ علامہ اقبال کے تعلقات کشیدہ تھے۔ کریم بی بی کے بطن سے علامہ اقبال کے دو بچے تھے۔ یہ شادی1893ءمیں ہوئی۔ پہلی بیٹی معراج بیگم1896ءمیں اور بیٹا آفتاب اقبال1898ءمیں پیدا ہوئے۔ کریم بی بی زیادہ وقت اپنے میکے میں گزارتی تھیں۔ ان کے والد ڈاکٹر عطاء محمد نے بیٹی کی پرورش بڑے نازونعم سے کی تھی۔ گجرات کے محلہ شال بافاں کی ایک شاندار حویلی میں پرورش پانے والی کریم بی بی اور علامہ اقبال کے خاندان میں نمایاں طبقاتی فرق تھا۔ علامہ اقبال نے لاہور میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت حاصل کرلی اور بھاٹی دروازے میں مکان کرائے پر لے لیا تو کریم بی بی نے ان کے ساتھ اس مکان میں قیام نہیں کیا۔ علامہ اقبال کو اپنی بیٹی معراج سے بہت محبت تھی لیکن بیٹے آفتاب کے ساتھ ان کے تعلقات خراب رہے۔ ان کی بیٹی معراج صرف انیس برس کی عمر میں1915ءمیں وفات پاگئیں لیکن باپ بیٹے کے اختلافات اتنے بڑھے کہ علامہ اقبال نے بیٹے اور بیوی سے علیحدگی اختیار کرلی۔ سید نذیر نیازی اپنی کتاب’’اقبال کے حضور‘‘ میں اس شادی کی ناکامی کے بارے میں کہتے ہیں کہ رشتہ عجلت میں طے ہوا، خاندانی حالات میں تفاوت تھا، علامہ اقبال نے نباہ کی بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ علامہ اقبال نے کریم بی بی کو طلاق دینے سے گریز کیا کیونکہ وہ طلاق کے لئے راضی نہ تھیں۔ علیحدگی پر اتفاق ہوگیا اور علامہ اقبال نے کفالت کی ذمہ داری اٹھالی۔ علیحدگی کے بعد اپنی موت تک علامہ اقبال ہر ماہ کریم بی بی کو رقم بھجواتے رہے لیکن بیٹے آفتاب اقبال سے انہوں نے کوئی تعلق نہ رکھا۔1967میں ’’علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی‘‘ کے عنوان سے سید حامد جلالی کی ایک کتاب سامنے آئی جس میں الزام لگایا گیا کہ اقبال نے پہلی بیوی سے ناانصافی کی اور اپنے بیٹے آفتاب کو وراثت سے محروم رکھا۔ پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر نے اپنی کتاب...’’اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ‘‘ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ علامہ اقبال کی پہلی شادی کے متعلق کتاب کے حقیقی مصنف اور ناشر دراصل شاعر مشرق کے بیٹے آفتاب اقبال تھے۔ اسی کتاب کا دوسرا ایڈیشن بیگم آفتاب اقبال نے شائع کیا اور اس کتاب میں علامہ اقبال پر وہی الزامات لگائے گئے جو بھارتی منصف اقبال سنگھ کی کتاب’’پرجوش مسافر‘‘ میں لگائے گئے۔ کئی مصنفین نے لکھا ہے کہ آفتاب اقبال اپنی والدہ کریم بی بی کو مظلوم اور والد کو ظالم سمجھتے تھے۔ اپنی بدتمیزیوں کے باعث والد کے دل سے ا تر گئے اور والد کی موت کے کئی سال بعد کسی دوسرے کے نام سے خود والد کے خلاف کتاب لکھ ڈالی۔ کئی بڑے لوگوں کے خلاف لکھی جانے والی کتابوں اور مضامین کے پیچھے ان کے کچھ قریبی رشتہ دار چھپے نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال کے مخالفین اور حاسدین نے انہیں ایک شرابی اور عیاش انسان بنا کر پیش کیا حالانکہ حقیقت مختلف تھی۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے والد کی سوانح حیات’’زندہ رود‘‘ میں بہت تحقیق اور دیانتداری کے ساتھ’’ازدواجی زندگی کا بحران‘‘ کے عنوان سے پورا باب شامل کیا ہے جس میں یہ اعتراف کیا کہ علامہ اقبال کو بچپن سے گانے کا بہت شوق تھا اور وہ راگوں کے الاپ سے شناسا تھے۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں ترنم سے نظمیں پڑھتے تھے۔ ان کے پاس ایک ستار تھا اور اسے بجانے کی مشق بھی کیا کرتے، اسی دور میں اقبال نے یہ شعر بھی کہا؎
لوگ کہتے ہیں مجھے، راگ کو چھوڑو اقبال
راگ ہے دین مرا، راگ ہے ایمان مرا
یہ ان کی جوانی کے ایام تھے۔کبھی کبھی گانا بھی سن لیا کرتے تھے۔ دہلی جاتے تو خواجہ حسن نظامی ان کے لئے قوالی کی محفل کا اہتمام کرتے انہیں قوالی بہت پسند تھی۔ آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ دیکھنے تھیٹر بھی چلے جاتے لیکن ان کی شراب نوشی اور عیاشی کا کوئی ثبوت نہیں۔ عیاشی کے شوق امیر لوگ پالتے ہیں۔ علامہ اقبال نے زندگی بھر امیر بننے کی کوشش نہیں کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی شادی کی ناکامی کے بعد انہوں نے مزید دو شادیاں کیوں کیں؟ اس سوال کا جواب ڈاکٹر جاوید اقبال نے دیا ہے، لکھتے ہیں کہ بہت سی پڑھی لکھی اور امیر خواتین علامہ اقبال سے شادی کی خواہش مند تھیں لیکن علامہ اقبال کسی ایسی خاتون کو اپنی بیوی بنانا چاہتے تھے جو ان کے خاندان کے ساتھ ایڈجسٹ کرسکے۔ علامہ اقبال کی والدہ نے موچی دروازے لاہور کی سردار بیگم کو پسند کیا اور علامہ اقبال سے نکاح ہوگیا۔ ابھی رخصتی نہ ہوئی تھی کہ اقبال کو سردار بیگم کے بارے میں کچھ گمنا م خطوط ملے اور وہ تذبذب کا شکار ہوگئے۔ رخصتی ملتوی ہوگئی، طلاق کا ارادہ تو کیا لیکن طلاق نہ دی۔ تین سال گزر گئے اس دوران لدھیانہ سے مختار بیگم کا رشتہ آگیا اور 1913میں مختار بیگم سے شادی ہوگئی۔مختار بیگم سے شادی کے بعد سردار بیگم نے اقبال کو خط لکھا اور کہا کہ میرا نکاح تو آپ سے ہوچکا اب میں دوسرے نکاح کا تصور نہیں کرسکتی ا سی حالت میں پوری زندگی بسر کروں گی۔ یہ خط پڑھ کر علامہ اقبال کو اپنی غلطی پر افسوس ہوا ۔ انہوں نے مختار بیگم کو بتایا ، انہیں بھی افسوس ہوا لہٰذا مختار بیگم کو اعتماد میں لے کر سردار بیگم سے دوبارہ نکاح پڑھوایا گیا۔ علامہ اقبال نے دونوں بیویوں کو انارکلی والے مکان میں اکٹھے رکھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے بقول دونوں میں بہت محبت تھی، ان دونوں کے اصرار پر ایک دفعہ اقبال نے اپنی پہلی بیوی کریم بی بی کو بھی بلوایا وہ کچھ دنوں کے لئے آئیں لیکن واپس چلی گئیں۔ مختار بیگم1924میں دوران زچگی لدھیانہ میں وفات پاگئیں۔ علامہ اقبال نے ان کی نماز جنازہ خود پڑھائی۔ سردار بیگم کے بطن سے جاوید اقبال اور منیرہ پیدا ہوئے۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے’’اپنا گریبان چاک‘‘میں ماں باپ کی تکرار کا ذکر بھی کیا ہے۔ سردار بیگم کا اصرار تھا کہ والد باقاعدگی سے وکالت کریں کیونکہ گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے۔ وہ کہا کرتیں کہ میں اس گھر میں ایک لونڈی کی طرح کام کرتی ہوں اور پیسے بچانے کی کوشش کرتی ہوں آپ بستر پر دراز شعر لکھتے رہتے ہیں۔ جواب میں علامہ اقبال صرف کھسیانی ہنسی ہنس دیتے۔ سردار بیگم کی کفایت شعاری اور ان کے زیورات کی فروخت سے لاہور میں اراضی خریدی گئی جس پر جاوید منزل تعمیر ہوئی۔ یہ گھر سردار بیگم کے نام تھا۔ علامہ اقبال کی ہدایت پر انہوں نے یہ گھر جاوید اقبال کے نام کردیا اور اس گھر میں آنے کے چند دن بعد1935میں وہ فوت ہوگئیں۔ انہیں بی بی پاکدامن قبرستان میں دفن کیا گیا۔ کریم بی بی کا انتقال1947میں ہوا وہ لاہور کے معراج دین قبرستان میں دفن ہوئیں۔
علامہ اقبال نے اپنی زندگی کے باقی سال جاوید منزل میں کرایہ دار کی حیثیت سے گزارے وہ اپنے بیٹے کے نام پر باقاعدہ ماہانہ کرایہ جمع کرایا کرتے۔ دشمنانان اقبال نے عطیہ فیضی کے نام اقبال کے خطوط، ایک جرمن خاتون ایماویگے ناست اور ایک گلوکارہ امیر بیگم کے ساتھ ان کی شناسائی کو آشنائی بنانے کی ناکام کوشش کی اور بہت سے الزامات لگائے لیکن ان الزامات کو پذیرائی نہیں ملی۔ وقت گزرنے کے ساتھ علامہ اقبال کا علمی و ادبی مقام بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے کچھ چھوٹے لوگ آئندہ بھی علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی کے بحران سے فائدہ اٹھا کر اپنا قد بڑھانے کی کوشش کرتے رہیں گے لیکن تاریخ ایسے چھوٹے لوگوں کو اہمیت نہیں دیتی۔