آج سے پچیس تیس سال قبل میں نے ایک کالم ”الٰہ دین کے جن کا زوال“ کے عنوان سے لکھا تھا اور پھر اسی تھیم پر پی ٹی وی کیلئے ایک ڈرامہ بھی تحریر کیا تھا۔ اسکی کہانی یہ تھی کہ ایک خستہ حال شخص کے ہاتھ الٰہ دین کا چراغ لگ جاتا ہے۔ وہ اسے رگڑتا ہے تو دھوئیں میں سے ایک جن قہقہے لگاتا ہوا برآمد ہوتا ہے۔ اس کا قد آسمان سے باتیں کرتا اور اس کے بازو مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوتے ہیں۔ جب یہ دھواں چھٹا اور اس قوی ہیکل جن کی دہلا دینے والی آواز فضا میں گونجی! کیا حکم ہے میرے آقا!
تو الٰہ دین ایک نظر اسے دیکھتا اور پھر کہتا ہے ”ذرا دوڑ کر نکڑ والی دکان سے میرے لئے ایک سانچی پان لاؤ“ جن کو اپنے نئے باس کے اس حکم کی تعمیل میں بڑی شرم محسوس ہوئی مگر اس نے تعمیل کی اور دوبارہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ الٰہ دین نے اسے حکم کا منتظر پایا تو کہا میں نہانا چاہتا ہوں۔ بالٹی اٹھاؤ اور سرکاری نلکے سے پانی بھر کر اسے صحن میں رکھ دو“
جن کو اگرچہ ایک بار پھر بڑی سبکی محسوس ہوئی مگر اس نے ”جو حکم میرے آقا“ کہا اور غائب ہو گیا۔
نہانے سے فراغت پا کر الٰہ دین نے ایک بار پھر چراغ رگڑا جس پر ایک گڑگڑاہٹ سنائی دی، فضا دھوئیں سے بھر گئی اور پھر خوفناک قہقہے لگاتا ہوا جن نمودار ہوا۔ اس نے جھک کر کہا
”کیا حکم ہے میرے آقا؟“
الٰہ دین نے کہا: ”بازار سے سبزی وغیرہ لے کر آؤ اور میرے لئے جلدی سے کھانا تیار کرو۔ بڑی بھوک لگی ہے“ یہ سن کر جن بہت شرمسار ہوا اور گردن جھکا کر بازار کی طرف چل پڑا۔ کھانا وغیرہ کھا کر الٰہ دین نے ایک بار پھر چراغ رگڑا جس پر جن ایک کھسیانی سی ہنسی ہنستا ہوا نمودار ہوا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ الٰہ دین نے حکم دیا کہ: ”ہمسایوں سے تھوڑی سی پتی مانگ کر لاؤ اور چائے بناؤ“ یہ سن کر پسینے کے قطرے جن کی پیشانی پر نمودار ہوئے جو اس نے فوراً ہاتھ سے پونچھ ڈالے اور بادل نخواستہ حکم کی تعمیل میں مشغول ہو گیا۔
اور پھر یوں ہوا کہ دن، مہینے اور سال گزرتے گئے اور وہ اپنے آقا کی خدمت میں اسی طرح مشغول رہا۔ اس کے کپڑے دھونا، استری کرنا، جوتے پالش کرنا، برتن مانجھتا اور نکڑ کی دکان سے اس کے لئے پان اور سگریٹ خرید کر لاتا اور پھر اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا۔
اس دوران جن میں ایک تبدیلی رونما ہوئی۔ اس کی جسامت پہلے سے بہت کم ہو گئی اس کا قد بھی گھٹتا چلا گیا اور اس کے قہقہوں کی گونج بھی مدھم پڑ گئی۔ ایک اور تبدیلی اس میں یہ رونما ہوئی کہ الٰہ دین کے چراغ رگڑنے پر وہ کاندھے پر رومال رکھے نمودار ہوتا اور ”کیا حکم ہے میرے آقا؟“ کی بجائے ”کیا حکم ہے صاحب جی؟“ کہتا۔ یہ جن آہستہ آہستہ اپنی پہچان بھولتا جا رہا تھا۔
سو الٰہ دین کے اس جن کی نقاہت اب روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ حتیٰ کہ ایک وقت آیا کہ اس کا قد گھٹتے گھٹتے اپنے آقا کے قد کے برابر ہو گیا۔ اس کے بازو اب مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے نہیں تھے بلکہ وہ سکڑ کر اپنے آقا جتنا ہی رہ گیا۔
رفتہ رفتہ اس کی کمر میں درد ہونے لگا اور پٹھے بھی درد کرنے لگے جس کے لئے وہ باقاعدگی سے ”سر بیکس ٹی“ کھانے لگا تاہم وہ اب بھی اپنے ”صاحب جی“ کی خدمت میں ہمہ تن مشغول رہتا۔
اس دوران الٰہ دین کو اپنے محلے کی ایک لڑکی سے عشق ہو گیا مگر سخت نگرانی کی وجہ سے اس کے ساتھ نامہ و پیام کا موقع نہیں ملتا تھا۔ ایک روز الٰہ دین نے چراغ رگڑا، ایک معمولی سی گڑگڑاہٹ سنائی دی اور پھر دھوئیں میں سے مدقوق چہرے والا جن نمودار ہوا۔ الٰہ دین نے ایک رقعہ اس کے ہاتھ میں تھمایا اور کہا: ”یہ رقعہ بلیلہ کو دے آؤ“
جن کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار ابھرے اور اس نے کہا: ”صاحب جی! میں جن ہوں کوئی ……“
مگر الٰہ دین نے اسے خاموش رہنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی سو روپے کا ایک نوٹ اس کی مٹھی میں تھما دیا۔ جن کی ”سربیکس ٹی“ کی شیشی ختم ہونے والی تھی سو اس نے یہ نوٹ جیب میں ڈالا اور جھینپتے جھینپتے وہ رقعہ بلیلہ تک پہنچا آیا بلکہ اس کی موثر کارکردگی دیکھ کر محلے کے دوسرے نوجوان بھی اب اس سے یہ خدمت لینے لگے۔ شروع شروع میں اسے اس کام سے ندامت محسوس ہوتی تھی مگر پھر یہ اس کی عادت بن گئی۔ اس دوران وہ خود کو تھکا تھکا سا محسوس کرنے لگا۔ اب وہ پہلے سے کروفر والا جن نہیں تھا بلکہ وہ اپنی شناخت بھول گیا تھا سو اب اسے بلانے کے لئے چراغ رگڑنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ کاندھے پر رومال رکھے، دھوتی اور بنیان پہنے ایسے ہی سب کی نظروں کے سامنے پڑا رہتا۔ اس کا قد الٰہ دین کے قد سے بھی چھوٹا ہو گیا تھا۔ چنانچہ اب الٰہ دین نے اسے بلانا ہوتا تو وہ اسے ”اوئے چھوٹے ادھر آؤ“ کہہ کر آواز دیتا۔
ایک دن اس نے الٰہ دین سے کہا
”صاحب جی! اگر آپ اجازت دیں تو میں کہیں اور کام تلاش کر لوں۔ آپ کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں آپ کا اپنا گزارہ بھی نہیں ہوتا۔“
الٰہ دین یہ سن کر جھینپ گیا اور پھر اس نے رضا مندی کے اظہار کے لئے ہولے سے اپنی گردن ہلا دی!
سو یہ جن آج کل بابو ہوٹل میں ملازم ہے اور ”چھوٹے اوئے“ کی آواز سن کر تھکے تھکے قدموں کے ساتھ ایک میز سے دوسری میز کی طرف جاتا ہے۔ کبھی کبھی اسے اپنا ماضی یاد آتا ہے تو اس کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے بازو اور آسمان سے باتیں کرتا ہوا قد! چشم زدن میں نئی دنیائیں تعمیر کرنے والا ماضی! چنانچہ ان لمحوں میں وہ دوبارہ جن کے روپ میں آنے کے لئے اپنی تمام قوتیں جمع کرتا ہے۔
مگر …اپنی اس تمام تر کوشش کے نتیجے میں وہ سگریٹ کے دھوئیں جتنے مرغولے میں سے اپنی دکھتی کمر پر ہاتھ رکھے نمودار ہوتا ہے۔ اس پر وہ مارے ندامت کے سر جھکا لیتا ہے اور ہولے سے کہتا ہے ”میں بڑے کروفر والا جن تھا مگر میرے آقاؤں نے مجھے کمزور کر دیا“ پھر ایک دم خوفزدہ ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہے کہ کہیں کسی نے یہ سن تو نہیں لیا کہ وہ کبھی بڑے کروفر والا جن تھا؟
خواتین و حضرات یہ وہی جن ہے جس کا خواب اقبال نے پاکستان کی صورت میں دیکھا تھا بلکہ یہ وہی جن ہے جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کی طاقت اور وسائل کا مظہر بن سکتا تھا۔ یہ وہی جن ہے جس کے بازو واقعی کبھی مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے تھے اور جس کا قد آسمان سے باتیں کرتا تھا یہ وہی جن ہے جو قیصر و کسریٰ کے محلات کو اپنی ہتھیلی پر اٹھا لیتا تھا اور جو نئی دنیائیں تعمیر کرتا تھا لیکن افسوس اس جن کو اس کے آقاؤں نے کمزور کر دیا۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اقبال کی شاعری ہمارے اس زوال کا نوحہ بھی ہے لیکن وہ ہمیں مایوسی کے اندھیروں سے نکالتا بھی ہے تاہم سچی بات یہ ہے کہ اقبال اب ہمارے کام کا نہیں رہا کیونکہ وہ ہم سے توقع رکھتا ہے کہ ہمارے مقاصد جلیل ہوں جبکہ ہمارے مقاصد اس گل خاں کی طرح قلیل ہیں جس نے چراغ رگڑا اور جن حاضر ہوا تو گل خاں نے کہا ”میرے لئے دس ایکڑ میں ایک عالیشان محل تعمیر کر دو“ جن نے چشم زدن میں اس کی یہ فرمائش پوری کر دی۔ پھر گل خاں نے کہا ”اب اس میں دنیا کا سب سے مہنگا فرنیچر ڈال دو“ جن نے اس حکم کی بھی تعمیل کی۔
گل خاں بولا ”اس محل کے پورچ میں بیس پچیس کروڑ کی گاڑیاں کھڑی کر دو“ پورچ میں دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں کھڑی نظر آنے لگیں۔ جن نے جھک کر پوچھا ”میرے آقا کوئی اور حکم؟“ گل خاں نے لجاجت بھرے انداز میں کہا ”اب مہربانی کر کے مجھے اس محل میں چوکیدار لگوا دو!“
خواتین و حضرات ہمارے آقاؤں کا معاملہ اس سے مختلف بھی ہے اور ملتا جلتا بھی۔۔۔ یہ وہ آقا ہیں جنہیں ان کا جن حکم دیتا ہے اور اس کے تمام احکامات کی تعمیل کے بعد یہ اس سے وہی کچھ مانگتے ہیں جو گل خاں نے مانگا تھا۔ ان کا امریکی جن نائن الیون کے بعد انہیں حکم دیتا ہے کہ سارا پاکستان ہمارے حوالے کر دو۔ ہم جس طرح، جہاں اور جب چاہیں کارروائی کریں، ہم تمہارے شہریوں کو بھسم کر کے رکھ دیں مگر تم بولنا نہیں ہم تمہیں خانہ جنگی کے دہانے تک پہنچا دیں لیکن تم نے اوف نہیں کرنی، بس حکم کی تعمیل کرتے جانا۔ چنانچہ یہ سب کچھ کیا جاتا ہے اور پھر جن اس آقا سے پوچھتا ہے۔ اب تم بتاؤ ان کاموں کے عوض کیا مانگتے ہو؟ ہمارا آقا گھگیاتے ہوئے کہتا ہے ”بس مجھے اس گھر کا چوکیدار لگا دو۔ اور اس کے مالکوں کو گھر میں داخل نہ ہونے دو اور میری جان کی حفاظت کرو!“ اس کی یہ فرمائش اس وقت تک پوری کی جاتی ہے جب تک نئی بھرتی شروع نہیں کی جاتی۔۔۔ سو اب نئے آقا ہیں مگر جن وہی پرانا ہے اور اس کی فرمائشیں بھی وہی ہیں۔ جو ہم پوری کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں ہم اقبال کو کیا یاد کریں جو خودی کو بلند کرنے کی بات کرتا ہے۔ جو منزل تک پہنچنے کے لئے عشق کو ہی رہنما مانتا ہے اور اس حوالے سے عقل کی اہمیت بھی تسلیم کرتا ہے۔
ہر دو بمنزلے رواں، ہر دو! امیر کارواں
عقل بہ حیلالی برد، عشق برد کشاں کشاں
مگر ہم جذبہ عشق سے بھی محروم ہیں اور اس تدبر سے بھی جس کے بل پر کمزور قومیں مشکلات سے نکلنے کا راستہ تلاش کر لیا کرتی ہیں۔
میں آخر میں آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ اپنی گزارشات ایک جھٹکے کے ساتھ ختم کر رہا ہوں۔ مجھے ابھی بہت کچھ کہنا تھا حکومت کو داد دینا تھی۔ اس نے آزاد عدلیہ کا سر اتنی ”مہارت“ سے کچلا کہ ”سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی“ والا محاورہ بدل کر رکھ دیا۔ کیونکہ اس کوشش میں حکومتی لاٹھی میں تریڑ آ گئی ہے مگر سانپ ابھی تک بل کھاتا لہراتا نظر آ رہا ہے جو حکومت کو ایک دن ضرور ڈسے گا۔ اسی طرح حکومت نے بے روزگاری پر قابو پانے کے لئے وفاقی کابینہ میں ساٹھ کے قریب بے روزگاروں کو جو روزگار فراہم کیا ہے وہ بھی قابل تعریف ہے۔ میری اس ”تعریف“ سے رضا ربانی اور مخدوم امین فہیم کو مستثنیٰ سمجھیں کہ اعتزاز احسن اور یہ دونوں رہنما میرے لئے بے حد قابل احترام ہیں۔ باقی باتیں پھر کبھی سہی کیونکہ میں وہی جن ہوں جو آج کل بابو ہوٹل میں ملازم ہے اور موجودہ حکومت کی طرح اس کی اپنی سر بیکس ٹی بھی ختم ہونے والی ہے۔!
(مرکز یہ مجلس اقبال کے زیر اہتمام لاہورمیں منعقدہ یوم اقبال کی تقریب میں پڑھا گیا)