• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ منتخب حکومت مدتی بحران سے قدم بہ قدم نکلتی جارہی ہے۔ ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘کا سفر نتیجہ خیز پیش قدمی کے ساتھ پاکستانیوں کو اپنی ناگزیریت کا ادراک کرانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ پاکستانی، گو ان کی اکثریت کے لاشعور میں ہمیشہ سے ہی یہ سرسراہٹ ہوتی رہی اب وہ اپنے ظاہری شعوری طرز ِ فکر اور طرز ِ عمل کے دائروں میں بھی اس قومی ماٹو کی منزل پانے کے مراحل میں کسی دوسرے سمجھوتے یا ’’حل‘‘ کے فلسفوں اور نعروں کو ایک نظر دیکھنے کے بھی روادار نظر نہیں آتے۔ قومی سیاسی سفر کے اس مرحلے کو برادر وجاہت مسعود نے نہایت معنویت سے بھرپور اظہاریئے کی شکل دی ہے۔ شکل یہ ہے:’’نظریہ ٔ ضرورت، مداخلت اور بداندیشی کا لشکر قدم بقدم پیچھے ہٹتا ہوا گوادر کے گہرے ساحلوں تک مراجعت کرگیا ہے!‘‘
لاہور میں 11دسمبر کی شام ایک مقامی پنج ستارہ ہوٹل میں سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے ساتھ دوستوں کے مکالمے میں پاکستان کی بقا کے بطن میں منتخب حکومتوں کے آئینی تسلسل میں تعطل کے اس برسوں سے موجود اور راسخ ’’غیرآئینی کوڑھ‘‘ کو واشگاف ابلاغ کے ساتھ منکشف کیاگیا، گفتگو کا دورانیہ گوہراکبرکے لئے مختصر مختصر رہا پھر بھی مسئلے کی بھرپوریت اور واقفیت کے حجم کی مطلوبہ نشاندہی میں شاید ہی کوئی کسر باقی رہ گئی ہو۔
سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویزرشید کو ان کی تاریخ ساز جمہوری جدوجہد پر حقیقتاً اور قلباً خراج تحسین اور خراج اعتراف پیش کرنےکے اس سیشن کو ہمارے صحافتی کولیگ مقصود بٹ نے تخلیقی مکالمے کے ساتھ اوپن کیا۔ ہر صاحب رائے کے خیالات پیش کئے جانے سے قبل انہوں نے دو چار جملوں میں کہیں اشعار سے، کہیں ضرب الامثالوں اور کہیں شکوہ الفاظ سے سیشن ’’اوپن‘‘ رکھنے کے عمل کو جاری رکھا۔ صدیق الفاروق، جگنو محسن، الطاف حسن قریشی، عطا الرحمٰن، اجمل شاہ دین، وجاہت مسعود، حسین احمد پراچہ، رئوف طاہر سمیت سب شرکا نے پاکستان کی ملکی اور قومی بقا کو لاحق خطرات، خدشات او رامراض کو اس ایک متفقہ جملے میں سمو دیا ’’پاکستان کو جب بھی آئینی انحراف کی راہ پر ڈالاگیا، پاکستان کا وجودسنبھل نہیں سکا‘‘ اورپرویز رشید کو خراج تحسین اور خراج اعتراف بھی حقیقتاً اور قلباً ان کی برسوں پر مشتمل اس جمہوری جدوجہد ہی کے نام تھا جس کے آخری سرے پر ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے آبلہ پا سفر کو حریت، خودی اور استقلال کی مثلث میں قیام پذیر ہو کے جاری رکھنے سے ہے!‘‘ 
قومی سیاسی تناظر میں ان کی وزارت سے ہٹائے جانے کا عمل ہمارے قومی سیاسی ادارے اور ان کے قائدین کے سیاسی وژن اور پرویز رشید جیسے سیاسی کارکنوں کا ’’تاریخی جبر‘‘ کو ایک وقوع کے طور پر جانچ کر ’’متوقع آئینی حملہ آوری‘‘ سے اپنے منتخب استحقاق اور منتخب ادارے کو محفوظ نکال لے جانے میںپوشیدہ تھا اور پرویز رشید کے ایک خاص عرصہ گزرنے پر ٹی وی سکرین پر آنے سے متوقع ’’آئینی حملہ آوروں‘‘ کوخواہ وہ میڈیا سمیت کہیں بھی حاضر و غائب تھے، مکمل پیغام دے دیا گیا۔ یہی ٹارگٹ تھا جسے منتخب حکومت نے سو فیصد کامیابی سے حاصل کیا۔ چنانچہ پاکستان کا ’’قومی سیاسی ادارہ ناقابل شکست و ریخت آئینی استحکام کی سرحدوں میں داخل ہوتا جارہا ہے‘‘ کی سچائی مسترد کرنا اب ناممکن ہے!
منتخب حکومت سے اگلی منتخب حکومت تک حالات کیا کروٹ لیتے ہیں؟ ان پرقیاس آرائیوں، پیش گوئیوں، مایوسیوں، بدگمانیوں اور دہشت انگیز اندیشوں پر مشتمل جو لوگ یا گروہ آج کے عہد میں آئینی تسلسل کے بجائے ’’آئینی کٹوتیوں‘‘، ’’انقلابی شورشوں‘‘ اور عوامی ’’لاعلمیوں‘‘ کے زاد ِ راہ لے کر ’’فاتح سیاسی انقلاب‘‘کی ’’مائونٹ ایورسٹ‘‘ پر پہنچنے کا علم اٹھاتے ہیں وہ صرف کار بے کار کی تھکن ہی کا شکار نہیں ہوتے ناقابل فراموش سیاسی ٹریجڈیز اور لاعلم عوام پر ناقابل تلافی ذہنی و جسمانی ظلم و ستم کے مرتکب ہوتے ہوئے عمران اور طاہر القادری کے تاریخی فیصلوں کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں، ایسے فیصلوں پر قومیں حیرت و افسوس سے نظر ڈالیں اور اپنے اپنے قومی سفروں میں اپنی آئندہ نسلوں کو ’’تازیانہ رہنمائی‘‘ ابواب کے طور پر پڑھاتی ہیں۔ اہل قلم بھی ایسے ’’تازیانہ رہنمائی‘‘، ابواب میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں، وہ آئندہ نسلوں کو آگاہ کرتے ہیں۔’’نئی عسکری قیادت کے لئے ایک اور بڑا چیلنج وہ بھیانک تقسیم ہے جس کا ہماری سیاست اور میڈیا شکار ہوگئے ہیں، گزشتہ چند سالوں میں سیاسی افق پر عمران خان، طاہر القادری اور شیخ رشید جیسے لوگ متحرک ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں کی سیاست کا محور اور مرکز یہی ہے کہ کسی طرح فوج اور حکومت کو آپس میں لڑادیں۔ بدقسمتی سے ایسے ناقابل تردید اشارے بھی موجود ہیں کہ ان کو سیاسی مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔
کیا ثمر ہے ایسے تاثر یا حقیقت کا، شیخ رشید کا پارلیمنٹ کو چھوڑنا سمجھ آتا تھا، انہوں نے ٹی وی چینلوں پر اخلاقیات کے لئے سوالیہ نشان زبان بے دریغ استعمال کی، دھرنوں میںرہے، پیش گوئیوں کا اس دردناک حد تک کاروبار کیا جس پر اب ان کے دوست اینکرز اور وہ خود آمنے سامنے بیٹھے زبان حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں! ’’خود بھی شرمسار ہو مجھے بھی شرمسارکر‘‘ لیکن ساری ’’حرکتوں‘‘ کو آخری ریڈ لائن تک لے جانے کے باوجود ’’پارلیمنٹ‘‘ کا فلور نہیں چھوڑا، گھاگ سیاسی ورکر انسان کے سیاسی سفر کے کلیے باخبر ہے یعنی جمہوری جدوجہد کے جتنے مرضی قاعدے قانون توڑو مگر منتخب ہونے کے بعد پارلیمنٹ کا ایوان نہ چھوڑو جبکہ ڈاکٹر صاحب اور عمران خان؟
بلاشبہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق کی آئینی شقیں ازبر کروا دیں، اپنی مذہبی تقاریر سے ان کے جذبات کے ترازو میں برداشت کا آخری جرثومہ بھی تول دیا، سوال یہ ہے راستہ کیا تھا؟ منزل کس طریقے سے ملتی تھی؟ ملکوں کا نہیں جب سے کائنات میں انسان نے شعوری زندگی اور شعوری ریاستی نظام اپنایا، اس وقت سے لے کر آج تک محترم و مکرم ڈاکٹر صاحب کسی ایسے ’’دور، عہد، وقت‘‘ کی نشاندہی کرسکتے ہیں جب کسی ایک انقلابی کے کہنے پر اس کے مزاج، فلسفے، نقشے اور طریق کار کے مطابق دو تین دہائیوں میں تیاریاں کر لی گئی ہوں، ان بیس تیس برسوں کے دوران میں اس ملک میں زندگی مکمل طور پر معطل رہی ہو، انسان ’’پتھر‘‘ کے بن گئے اور زندگی کا تسلسل ’’منجمد‘‘ ہوگیا، پھر ان بیس تیس برسوں کے بعد اچانک ایک صبح قوم کو جگا کر ’’انقلابی‘‘ رہنما نے اعلان کردیا ہو ’’مارچ کرو، حکمران ایوان اقتدار چھوڑ کر تمہارا استعمال کرنے کو تیار ہیں!‘‘
اور عمران خان؟
افسوس ان سطور میں شائع شدہ باتوں میں خان صاحب کے متعلق عرض کیا جا چکا ’’وہ مستقبل کی کوہ ہمالیاتی سیاسی ٹریجڈی ہوں گے‘‘ سوال محبت کا نہیں؟ محبت کے استعمال اور اطلاق کا ہوتا ہے۔ سوال جذبے کا نہیں سوال جذبے کے استعمال اور اطلاق کا ہے؟ سوال شفافیت کا نہیں شفافیت کے استعمال اور اطلاق کا ہے۔سوال پارلیمنٹ کا نہیں، پارلیمنٹ کے استعمال اور اطلاق کا ہے۔اور خان صاحب سوال مخلصانہ کوشش کا نہیں؟ اخلاص کے استعمال اور اطلاق کا ہے۔ اور اس گھڑی تو اس دامن اخلاص میں سو چھید ہو جاتے ہیں جب آپ جمہوری اداروں، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی نفی کر کے ان کی ایک دن کی مراعات بھی ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوں!





.
تازہ ترین