• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں ڈالر کی طلب میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے گزشتہ روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 107.70 سے 108روپے تک پہنچ چکی تھی جبکہ انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 104.84روپے تھی۔ ڈالر کی طلب اور قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ بھارت میں 500 اور 1000 روپے کی بندش ہے جس کے باعث بھارت میں لوگ سونا اور ڈالر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہے ہیں جو بھارت کو دبئی سے سپلائی کئے جارہے ہیں۔ انہی دنوں پاکستان میں بھی یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ حکومت پاکستان 5000روپے کا کرنسی نوٹ اور 40,000روپے کے پرائز بانڈز بند کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے مارکیٹ میں افراتفری پھیل گئی اور لوگوں نے بڑے پیمانے پر ڈالر اور سونے کی خریداری کی جس کے باعث ڈالر اور سونے کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں لیکن بعد میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے تردید کی کہ مرکزی بینک صرف 10،50، 100 اور 1000 روپے کے پرانے ڈیزائن کے کرنسی نوٹ ختم کررہا ہے اور 5000 روپے کا کرنسی نوٹ یا 40,000 روپے کے پرائز بانڈز ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
دنیا کی کرنسیوں کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امریکی ڈالر دنیا کی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں مسلسل مضبوط ہورہا ہے جس کے باعث چین اور بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کی کرنسیوں کی قدر میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن پاکستان(ECAP)کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ نے بتایا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی غیر ملکی کرنسیوں کی اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات اور حکومت کی غیر ملکی کرنسی امپورٹ کی اجازت نہ ملنے کے باعث نومبر میں دبئی سے تقریباً 500 ملین ڈالر پاکستان نہ پہنچنے کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی شدید قلت پیدا ہوئی اور ڈالر کے آفیشل اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں تقریباً تین روپے کا ریکارڈ فرق پیدا ہوا جبکہ دبئی سے ڈالر نہ آنے کی وجہ سے بینکوں کے ڈالر ڈپازٹس پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے اور مارکیٹ میں ڈالر کی قلت کی وجہ سے گزشتہ 4 مہینوں میں 35 فیصد کم ٹرانزیکشن ہوئیںلیکن اس کے باوجود اسٹیٹ بینک کی مارکیٹ میں ڈالر فروخت کرنے کی دخل اندازی دیکھنے میں نہیں آئی جس طرح وہ ماضی میں ڈالر کی طلب اور قدر کو کنٹرول کرتا تھا۔
قارئین! پاکستانی ایکسپورٹرز کی جانب سے حکومت پر دبائو ہے کہ وہ خطے کے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی روپے کی قدر میں بھی کمی (Devaluation) کرے لیکن پاکستان پر 65 ارب ڈالر سے زائد کے غیر ملکی قرضے جن کی ادائیگیاں حکومت کو آنے والے وقتوں میں کرنی ہے، روپے کی قدر کم کرنے کی وجہ سے کئی ارب ڈالر بڑھ جائیں گے جس سے ملک پر قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا۔ یاد رہے کہ قرضے لینے کی زیادہ سے زیادہ حد کا قانون (Debt Limitation Act) حکومت کو جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ قرضے لینے کی اجازت نہیں دیتا جبکہ پاکستان پر عائد قرضے پہلے ہی ملکی جی ڈی پی کے 65 فیصد سے تجاوز کرچکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں فیڈریشن کے وفد کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات میں انہوں نے ملکی ایکسپورٹس بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر کو مقابلاتی بنانے کیلئے ایکسپورٹرز کو مراعاتی پیکیج دینے کا وعدہ کیا ہے کیونکہ وزیر خزانہ غیر ملکی قرضے نہ بڑھانے کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی (Devaluation) کے مخالف ہیں۔
وزیر خزانہ کئی بار ملاقاتوں میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ ڈالر کو 100 سے 102 روپے تک رکھنے کے حق میں ہیں لیکن خطے کی دیگر کرنسیوں کی قدر میں کمی کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا ملکی ایکسپورٹس کیلئے نقصان دہ ہوگا جو پہلے ہی 25 ارب ڈالر سے کم ہوکر 20 ارب ڈالر کی نچلی سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلئے ہمیں اپنی ایکسپورٹس ہر صورت بڑھانا ہونگی، اس کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر میں اضافے سے ہم زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھ سکتے ہیں لیکن ایسا نہ ہونے کی صورت میں پاکستانی روپے دبائو کا شکار رہے گا۔ بدقسمتی سے گزشتہ کئی سالوں سے ایکسپورٹس میں کمی کے علاوہ ملک میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بیرون ملک سے صرف ترسیلات زر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو 18 سے 19 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہیں لیکن غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور تجارتی خسارے کو پورا کرنے کیلئے ہمیں زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہوکر 50 ڈالر فی بیرل تک گرگئی ہیں جس سے آئل امپورٹ بل میں کمی آئی ہے لیکن ایکسپورٹس میں کمی کے باعث اب بھی تجارتی خسارہ تقریباً 20 ارب ڈالر متوقع ہے جبکہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے پاکستان کے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر سے گرکر 23.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جس میں 18.3 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک اور 5 ارب ڈالر کمرشل بینکوں کے شامل ہیں۔ اسی طرح گزشتہ 5مہینوں (جولائی سے نومبر2016ء) میں پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری (FDI) 45 فیصد کم ہوکر 460 ملین ڈالر رہ گئی ہے جو گزشتہ مالی سال اسی دورانئے میں 840 ملین ڈالر تھی جبکہ اسی دورانئے میں بیرونی سرمایہ کاروں نے پاکستان اسٹاک مارکیٹ سے 95 ملین ڈالر نکلوائے ہیں جو 2015ء میں 192.4ملین ڈالر تھے تاہم خوش آئند بات یہ تھی کہ بیرونی فنڈز منیجرز کے فروخت کئے گئے شیئرز مقامی سرمایہ کاروں کے خریدنے کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ گرنے کے بجائے 46,500 کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
پاکستان میں پرائز بانڈ کیش ادائیگی پر خریدے جاتے ہیں اور ان کی خرید و فروخت کیلئے کسی دستاویزات کی ضرورت بھی نہیں ہوتی جبکہ یہ کالے دھن کو چھپانے کا نہایت آسان طریقہ بھی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر میں تقریباً 3 روپے کے فرق کو نارمل نہیں کہا جاسکتا۔ حال ہی میں فاریکس ایسوسی ایشن پاکستان (FAP) کے چیئرمین ملک بوستان نے دوران ملاقات بتایا کہ حالانکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 108 سے 109 روپے میں فروخت ہورہا تھا لیکن انہوں نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ 107.20 سے 107.40 روپے کی سطح تک رکھنے کا اعلان کیا۔ انہوںنے بتایا کہ اُن کی پوری کوشش ہے کہ ڈالر 106روپے کی سطح پر واپس لایا جائے لیکن مقامی مارکیٹ میں ڈالر کی قلت کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر اب بھی 107.70 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے میری درخواست ہے کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر ڈالر کی طلب و رسد میں توازن پیدا کرنے اور ڈالر کی سٹہ بازی کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔




.
تازہ ترین