• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی کرپشن پر قو می احتساب بیورو کی جانب سے پلی بارگین کے معاملے پر ملک کے سنجیدہ قومی و سیاسی حلقوں میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ قومی خزانے کی کرپٹ مافیا کے ہاتھوں لوٹ مار پر پوری پاکستانی قوم سراپا احتجاج ہے۔ یہ کیسا قانون ہے کہ اربوں کی کرپشن کرو اور پھر کروڑوں روپے دے کر باعزت چھوٹ جائو؟ اب تو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی مشتاق رئیسانی کی نیب سے ڈیل پر اپنے لب کھول دیئے ہیں اور پلی بارگین کو چوروں اور لٹیروں کو راستہ دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔ چوہدری نثار نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ نیب کے کئی قوانین غلط ہیں اور ان میں کئی خرابیاں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں شفاف احتساب تب ہوگا جب احتسابی ادارے کا چیئرمین عدلیہ مقرر کرے گی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے بجا طور پر درست تشخیص کی ہے کہ قومی احتساب بیورو کو آزاد، فعال اور متحرک کرنے کیلئے حکومت کو فوری طور پر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اب تک تو یہ ہوتا آیا ہے کہ حکومتیں نیب کے ادارے کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ جن سیاسی مخالفین کو دبانا ہوتا تھا انہیں نیب کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا تھا لیکن حکومت میں شامل بدعنوان افراد پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا تھا۔ جنرل (ر)پرویز مشرف کے دور میں نیب کو بنایا گیا تھا۔ سابق ڈکٹیٹر بھی کرپشن کے خاتمے اور احتساب کا نعرہ تو لگاتے رہے مگر حقیقی معنوں میں ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ ان کے دور میں بھی مشرف کابینہ میں موجود وزرا کو پکڑنے سے احتساب بیورو کو منع کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی سیاسی مخالفین کو ہی نشانہ بنایا گیا اور اب اسی طرز عمل کا مظاہرہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے دوران بھی کیا جا رہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں تو نیب کا ادارہ کافی سرگرم دکھائی دیتا ہے مگر پنجاب میں نیب کو بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے سے عملاً روک دیا گیا ہے۔ آخر یہ کیسا احتساب ہے جو سندھ اور بلوچستان میں تو ہو رہا ہے لیکن بڑے صوبے پنجاب میں اس کے اثرات نظر نہیں آرہے؟
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاناما لیکس کی شکل میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل سامنے آئے آٹھ ماہ گزرچکے ہیں مگر نیب نے اس سلسلے میں ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ اگر ریاستی ادارے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر بھی اتنی بڑی کرپشن پر ابھی تک ٹس سے مس نہیں ہوئے تو پھر کرپشن کو آخر کون ختم کرے گا؟ اور بلاامتیاز احتساب کیسے ہو گا؟ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے حق بات کہی ہے کہ صرف موجودہ حکمرانوں کا احتساب ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ ماضی کے حکمرانوں کا بھی احتساب ضروری ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس وقت ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں آخر احتسابی عمل سے کیوں خوفزدہ ہیں؟ وفاقی وزیر داخلہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت نیب کو آزاد اور خود مختار بنانا چاہتی ہے اور عدلیہ کے ذریعے اس کے سربراہ کا تقرر بھی کرنا چاہتی ہے لیکن پیپلز پارٹی ان کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی دونوں نے تین بار پاکستان پر حکومت کی ہے اور ان دونوں پارٹیوں پر ماضی میں کرپشن کے سنگین الزامات لگتے رہے ہیں۔ اگر واقعی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کا دامن صاف ہے تو انہیں اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کردینا چاہئے۔ آصف زرداری، نوازشریف اور شہبازشریف کو اپنے حقیقی اثاثے عوام کے سامنے لا کر ایک اچھی مثال قائم کرنی چاہئے مگر لگتاہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اسی لیے تو لیت ولعل سے کام لیاجا رہا ہے۔ ابھی پانامالیکس کامقدمہ سپریم کورٹ میں ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کااحترام کرنا چاہئے۔ اگر عدالت میں ثابت ہو جاتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی اور دیگر سیاسی رہنمائوں نے ملکی دولت کو ناجائز طور پر پاکستان سے باہر منتقل کیا ہے اور منی لانڈرنگ کی ہے تو پھر ایسے بدعنوان افراد کو ہمیشہ کیلئے سیاسی طور پر نااہل قرار دے دینا چاہئے۔ پاناما لیکس کے ساتھ ساتھ موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے دور میں جن لوگوں نے قرضے معاف کروائے ہیں ان کابھی احتساب وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ 1971ء سے لے کر اب تک 280ارب روپے کے قرضے معاف کروائے گئے ہیں۔ پاکستان کے مالیاتی اداروں سے اب تک 9لاکھ 2ہزار پاکستانیوں نے قرضے معاف کرائے ہیں۔ ملکی معیشت کی ترقی اور استحکام کیلئے بھی ازحد ضروری ہے کہ کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب کیا جائے بصورت دیگر ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنا ناممکن ہو گا۔ نیب میں پلی بارگین کا قانون جنرل مشرف کے دور میں نافذ کیا گیا۔ اس قانو ن نے کرپشن کو ختم نہیں کیا بلکہ بدعنوانی کی باقاعدہ حوصلہ افزائی کی ہے۔ جس طرح مشتاق رئیسانی کو40ارب لوٹنے پر صرف 2ارب وصول کر کے کلین چٹ دے دی گئی اسی طرح مشرف کے دور سے اب تک مسلسل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اب تو کھلے عام کرپٹ افراد نیب سے رابطہ کرتے ہیں اور پلی بارگین کے ذریعے اپنے آپ کو پاک وصاف کروا لیتے ہیں۔ اب تو لاہور، اسلام آباد اور ملتان میں بننے والی میٹرو بسوں، اورنج ٹرین اور سی پیک منصوبوں پر بھی کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں۔ نیب نے جو پلی بارگین کا فارمولہ دیا ہے اس کے تحت تو پھر جو چاہے اربوں کی لوٹ مار کرے اور پھر اُس کا عشر عشیر دے کر دوبارہ میدان سیاست میں آ جائے۔ میڈیا میں آنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری دستاویزات کے مطابق گزشتہ سات سال کے دوران 418کرپٹ افراد نے اختیارات کا غیر قانونی استعمال کرکے مختلف ٹھیکوں، کک بیکس، کمیشنوں کی وصولی اور سرکاری رقوم میں خورد برد کے ذریعے قومی خزانے کو 35ارب 93کروڑ کا خطیر نقصان پہنچایا ہے۔ یہ محض گزشتہ سات سال کی یہ ایک رپورٹ ہے۔ اب آپ اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ سات سال قبل سرکاری محکموں میں کرپشن کی کیا انتہا ہوگی؟ سی پیک منصوبہ اس وقت کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پاک چین اکنامک کاریڈور پر 51بلین ڈالر خرچ ہوں گے اور یہ پروجیکٹس مستقبل میں 200ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ چینی حکام بھی پاکستان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان منصوبوں میں کرپشن کی روک تھام کیلئے وفاقی حکومت ایک شفاف نظام وضع کرے۔ اگر سی پیک پر بھی انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئیں تو اس کا سیاسی نقصان مسلم لیگ(ن) کو آئندہ 2018 کے الیکشن میں ہو سکتا ہے۔ اسے اب اپنی اخلاقی ساکھ کو مزید گرنے سے بچانا چاہئے اور ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ جس سے نیب کی بھی اصلاح ہوسکے اور ملک سے کرپشن کا بھی قلع قمع ہو سکے۔ بہرکیف کرپشن کے خاتمے کیلئے پارلیمنٹ میں نئی قانون سازی ہونی چاہئے۔ نیب قوانین پر نظر ثانی بھی جلد ہونی چاہئے۔ نیب کا پلی بارگین فارمولہ عملاً ناکام ثابت ہوا ہے۔ قومی احتساب بیورو کی اپنی رپورٹ کے مطابق اربوں لوٹنے والوں سے صرف18 فیصد رقم وصول کی گئی ہے۔ کسی بھی قانون میں اگر سقم ہے تو اسے فوری دور کرنا چاہئے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک غریب آدمی کو تو معمولی چوری پر پکڑ لیا جائے اور وہ جیل میں پڑا سسکتا رہے اور ایک بااثر اور امیر آدمی کو بیک ڈور سے پلی بارگین کر کے عزت کے ساتھ گھر بھیج دیا جائے۔

.
تازہ ترین