• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1931کی حیرت انگیز کہانی ہے، تحریک آزادی کے دوران صرف ایک ہری پورجیل میں باچا خان سمیت15 ہزار خدائی خدمتگار پابند سلاسل تھے، جبکہ جیل کے عقب میں واقع قبرستان میں بے شمار سرفروش جانباز محوِ خواب۔ ہزاروں خواتین و مرد خدائی خدمتگار شہدا، پورے پختونخوا کی جیلوں کے اسیروں، جائیدادوں کی نیلامیوں کا اگر ہم تذکرہ نہ بھی کریں تو ہری پور جیل کے مذکورہ ایک واقعہ سےکیا یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ چار عشروں پر محیط آزادی کی جدوجہدکے دوران خدائی خدمتگار تحریک نے کیا کیا قربانیاں دی ہونگی؟ آج ایسی بے مثال خدائی خدمتگار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی29ویں برسی ہے، آیئے ان کی جیل کہانی پڑھتے ہیں۔
آپ کی جدوجہد کا محرک جہالت کے خاتمے کا خیال تھا، اس سلسلے میں1910 میں آپ نے اپنے گائوں اتمان زئی میں پہلا اسکول قائم کیا۔ پھر پورے صوبے میں اسکول قائم کئے۔ ہندوستانی نژاد امریکی مصنف ایکنات سوارن کی تصنیف A MAN TO MATCH HIS MOUNTAINSکے مطابق باچا خان نے اپنے اصلاحی اور تعلیمی پروگرام کو عوام تک پہنچانے کیلئے کندھے پر چادر ڈالے ہزاروں میل کا سفر کیا اور تین سال میں صوبہ سرحد (پختونخوا) کے تمام500 بندوبستی گائوں کا دورہ کیا۔ یوں تو باچا خان نے مختلف اوقات میں 35سال جیل کاٹی، لیکن پہلی گرفتاری اسکول میں فٹبال گرائونڈ بناتے ہوئے 1921میں ہوئی اور تین سال جیل میں گزارنے کے بعد 1924میں رہا ہوئے۔ اسی سال باچا خان نے فرسودہ رسم و رواج کے خاتمے کیلئے انجمن اصلاح الافغانہ کی داغ بیل ڈالی۔ 1926میں  آپ حج کیلئے گئے، جہاں سے بیت المقدس چلے گئے وہاں آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوا، جنہیں آپ نے قبلہ اول کے سائے تلے سپرد خاک کیا۔ 1927میں آپ خلافت کمیٹی کے وفد کے ہمراہ افغانستان جاتے ہوئے گرفتار ہوئے۔ رہائی پر 1928میں آپ نے پہلے پشتو ماہنامے ’پختون‘ کا اجرا کیا۔ 1929میں انگریزوں کے خلاف ایسی جاندار تحریک برپا کی کہ فرنگی کو برملا اعتراف کرنا پڑا 1930تک وہی ہوا جو ہم (انگریز) چاہتے تھے، روس پسپا ہوا، کابل میں خاموشی چھا گئی اور سرحدوں پر امن قائم ہوگیا، ایسے میں ایک شخص عبدالغفار خان اٹھا اور پھر ہر طرف شورش اور بے چینی پھیل گئی (خفیہ دستاویزات این ڈبلیو ایف پی) 1930میں آپ کو تین سال سزا ہوئی، رہائی پر بمبئی میں کی جانے والی ایک باغیانہ تقریر پر دسمبر 1934میں دوسال کیلئے قید پھر آپ کا مقدر بنی۔ 1930سے 1936تک آپ ہری پور، گجرات اور بمبئی جیلوں میں رہے، اس دوران جیل سے صرف سو دن باہر رہے۔ عوامی مینڈیٹ کا یہ عالم تھا کہ 1937میں جب انتخابات ہوئے تو خدائی خدمتگار جیت گئے اور مسلم لیگ کا مسلم نشستوں پر بھی ایک بھی امیدوار کامیاب نہ ہو سکا۔ خدائی خدمتگاروں کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ باچا خان نے ہر محاذ پر قربانی کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا، مردان مارچ کے دوران لاٹھی چارج سے آپ کی دونوں پسلیاں ٹوٹ گئیں اور اسی حالت میں جیل میں ڈال دیئے گئے۔ باچا خان کی ذاتی زندگی سے متعلق جنگ آزادی کی ایک اور تابندہ شخصیت خان شہید عبدالصمد اچکزئی اپنی خودنوشت ’میری زندگی اور زندگانی‘ میں لکھتے ہیں ’’ہندوستان میںقیام کے دوران باچا خان اور میں ایک کمرے میں ٹھہرے تھے، یہ میری باچا خان سے پہلی ملاقات تھی، لیکن میں پہلے ہی روز ان سے تنگ آگیا، وہ یوں کہ باچا خان عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے، لیکن جب میں کبھی ان کا کوئی چھوٹا موٹا کام کرنے کا ارادہ کرتا تو وہ منع کرتے، اپنے کام خود کرتے بلکہ میری خدمت بھی کرتے یہاں تک کہ چائے بھی بنا کر مجھے دیتے جس پر میں بہت شرمندہ ہوتا، لیکن رفتہ رفتہ میں باچا خان سے آشنا ہونے لگا، ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ باہم یکجان ہوگئے‘‘۔
1946کے انتخابات میں پختونخوا کی 50میں سے خدائی خدمتگاروں نے 33نشستیں لیکر دو تہائی اکثریت حاصل کرلی، مسلم لیگ کو17نشستیں ملیں، جن میں ہزارہ کی9 میں سے 8نشستیں شامل ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد آپ نے جمہوری و عوامی حقوق کی خاطر 1948میں پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی لیکن 15 جون 1948کو گرفتار کر لئے گئے۔ تین سال قید کے بعد رہا ہوئے تو مزید تین سال کیلئے جیل بھیج دیئے گئے، جنوری 1954میں رہا تو ہوئے لیکن سرکٹ ہائوس راولپنڈی میں نظربند کر دیئے گئے، 17جولائی 1955کو جب رہائی ملی تو پھر 1956میں بغاوت کے الزام میں پس زندان چلے گئے۔ 20جنوری 1964کو شدید علالت کی وجہ سے باچا خان کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔ وہ علاج کیلئے انگلینڈ چلے گئے وہاں انہیں امریکہ میں ایک پختون گروپ اور مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے دعوت نامے موصول ہوئے کہ ہمارے پاس آکر سکونت اختیار کرلیں مگر باچا خان نے معذرت کر لی۔ ظاہر شاہ والی افغانستان کی دعوت پر 12دسمبر 1964کو کابل پہنچے۔ جہاں ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔ ایس فدا یونس جو کابل کے پاکستان سفارتخانے میں قونصل آفیسر تھے، اپنی کتاب ’’تھانے سے سفارت تک‘‘ میں  لکھتے ہیں ’’1969میں باچا خان کو گاندھی جی کی برسی میں شرکت کیلئے ہندوستان سے دعوت نامہ ملا، باچا خان کے پاکستانی پاسپورٹ کی معیاد ختم ہو چکی تھی، افغان حکومت نے  افغان پاسپورٹ دینے کی پیشکش کی، باچا خان نے کہا کہ وہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے پاکستان ہی کے پاسپورٹ پر سفر کریں گے، کابل میں ہندوستان کے سفیر نے کہا کہ وہ معزز ہستی ہیں، انہیں کسی پاسپورٹ، ویزہ کی ضرورت نہیں، باچا خان نہ مانے۔ باچا خان نے اپنا پاسپورٹ مع درخواست پاکستانی سفارتخانے کو بھیجا، بحیثیت قونصل آفیسر میں نے باچا خان کی درخواست مع خط اپنی وزارت خارجہ کو ارسال کی، وہاں سے منظوری آئی اور میں نے باچا خان کو نیا پاسپورٹ جاری کردیا‘‘ اس کے بعد باچا خان کی جیل و جلاوطنی کا سلسلہ دراز رہا جس کا ایک کالم میں احاطہ ممکن نہیں۔ جنوبی ایشیا میں اپنے کردار و عمل سے منفرد مقام بنانے والی یہ بے مثال شخصیت 20جنوری 1988کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ آج کی سیاسی دنیا جو بہت وسیع بھی ہے اور زرخیز بھی، اس میں آزادی و عوامی حقوق کیلئے کیا کوئی ایک بھی ایسی نظیر مل سکتی ہے؟ عجیب انصاف ہے کہ پھر بھی غدار باچا خان ٹھہرے اورجو ملک کو لوٹ کر کھارہے ہیں یا جنہوں نے دولخت کیا وہ محب وطن…!

.
تازہ ترین