• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1980میں ایک انشورنس کمپنی کے چیف ایگزیکٹوسے ملنے کا اتقاق ہوا،کافی گپ شپ رہنے لگی، میں نے کریداوہ کیسے اس بڑے عہدے تک پہنچا۔ اُس نے بتا یا میں اسکول کے زمانے سے ہی بہت ڈھیٹ قسم کا طالب علم تھا، جو بات میرے دماغ میں سماجاتی تھی جب تک اُس کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا دیتا مستقل لگارہتا تھا، یہاں تک کہ کالج کی ڈگری بھی مل گئی، بہت جگہ نوکری ٹرائی کی، نہیں ملی ۔ایک دن اخبار میں ایک انشورنس کمپنی کا اشتہار پڑھا نہ چاہتے ہوئے بھی درخواست دے ڈالی اگر نوکری مل گئی تو صحیح بعد میں من پسند نوکری ملی تو چھوڑ دونگا۔ چند ہی دن بعد انٹرویو کا خط ملا کمپنی بڑی تھی لمبی قطار میں نوجوان بیٹھے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے ۔کافی دیر بعد بھیڑ چھَٹی ،تب جاکر میرا نمبر آیا ۔3 افراد انٹرویو لے رہے تھے تو رہے سہے اوسان بھی خطاہوگئے کس کس کو مطمئن کر پائوں گا۔دل میں سوچ لیا یہ نوکری تو اب لینی ہی لینی ہے ۔ انٹرویو شروع ہوا ، پہلا سوال عام افراد انشورنس کروانے سے کتراتے ہیں۔ یہ 60کی دہائی کا زمانہ تھا تو آپ کیسے ان کو انشورنس کروانے پر آمادہ کرینگے ۔ میںنے جواب دیا کہ میں انشورنس کے فوائد گنواؤں گا ۔ مثلاً اس میں بچت کے ساتھ ساتھ آپ کی رقم معہ منافع واپس ہو جاتی ہے ۔ جب انشورنس کی میعاد پوری ہونے پر اگر وہ نہ مانے تو میں اور دلیلیں دونگا۔ پھر بھی نہ مانے تو میں اور زیادہ دلیلیں دونگا۔ اگر غصہ سے آپ کو دفتر یا گھر سے نکل جانے کو کہے تو میں نہیں نکلوں گا۔ اپنی دلیلیں اور فوائد گنوانیں کا سلسلہ اور بڑھا دونگا۔ اگر وہ اُٹھ کر آپ کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی گھر سے نکال کر دروازہ بند کر دے تو میں پھر بھی کوشش کرونگا کہ اپنا مؤ قف بتانے کے لئے دروازے پر دوبارہ دستک دوں ۔ اگر وہ دروازہ کھول کر آپ کو اٹھا کر پھینک دے تو ؟میں اگر ہڈی تڑوا بیٹھا تو پہلے اسپتال جاؤں گا ۔ صحتیاب ہوتے ہی اس کے گھر پر پہنچ کر اس کو قائل کرنے کی کوشش کرونگا ۔ میرا جواب سنتے ہی تینوں اپنی اپنی سیٹس سے اُٹھے ، ہاتھ بڑھایا اور نوکری پکی کرنے کی مبارکباد پیش کی۔ آگے کیا ہوا میں نے لقمہ دیا ۔ میں نے اتنے بھر پور طریقے سے نوکری نبھائی ۔ اتنی محنت کی ، پھر ایک دن میں ترقی کرتے کرتے چیف بن گیا۔ میں نے سوال کیا ، آپ کے ساتھ اس دوران کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ ناکام بھی ہوئے ، وہ ہنسا اور پھر کہنے لگا صرف ایک مرتبہ میں ناکام ہوتے ہوتے رہ گیا۔ مجھے ایک کلائنٹ نے ایک مرتبہ گھر سے اُٹھا کر باہر پھینکا ۔ دوسری مرتبہ دفتر کی سیڑھیوں سے ، اور تیسری مرتبہ چلتی گاڑی سے پھینکا ۔ مگر چوتھی مرتبہ اس نے تنگ آکر انشورنس کروا ہی لی۔ قصہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ کہانی ہمارے سب سے ہر دلعزیز وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کی سیاسی زندگی کی یادیں تازہ کر رہی ہے۔ میاں صاحب کو سب سے پہلے غلام اسحق خان صاحب نے 2مرتبہ کرپشن پر سبکدوش کیا ۔ پھر 1999 میں جب وہ اپنے ہی لائے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کو سبکدوش کر چکے تھے۔ پرویز مشرف کے آدمیوں نے پرویز مشرف کا ساتھ نبھایا اور ان کو معزول کر دیا۔ بعد میں سعودی عرب کی خواہش پر 10سال کے لئے جلا وطن کر دیا۔ قدرت مہربان ہوئی دوبارہ واپسی ہوئی اور آج پرویز مشرف جلاوطنی بھگت رہے ہیںاور نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنےہیں۔ مگر 2013سے لیکر آج تک وہ مسلسل سیاسی جوار بھاٹے کی زد میں ہیں۔ دھرنوں سے نہ صرف خود کو نکالا بلکہ اپنے چیف منسٹر بھائی شہباز شریف کو سانحہ لاہور سے نکالا ۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ عمران خان صاحب نے پھر اڑنگا لگایا ۔ ایک مرتبہ پھر علاج کے بہانے لندن میں جا کر رہے ۔ حالات ٹھیک ٹھاک تھے کہ بیچ میں پاناما لیکس سے پہلے ان کے بڑے صاحبزادے سے ایک چینل کے اینکر نے بیرونِ ملک دولت اور گھروں کی کہانی اگلوائی ۔ ابھی نواز شریف صاحب اس کی صفائیاں پیش کر رہے تھے کہ پانامالیکس نے ان کا جوڑ جوڑ ہلا ڈالا۔ بڑی مشکل سے عمران خان صاحب عدلیہ میں معاملہ لے کر گئے ۔ آج کل پاناما لیکس پر روزانہ مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ میاں صاحب کے حامی وزراتو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایک ہفتے میں پھر کامیابی میاں صاحب کے قدم چوم لے گی۔ ایسا دعویٰ وہ کیوں کر رہے ہیں ، اصل تو مضحکہ خیز خبر یہ ہے کہ پی پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو لاہورکے اپنے قلعہ نما محل سے لشکر لے کر نواز شریف کی کرپشن کے خلاف نکلے ہیں۔ گو کہ جس بڑے مجمع کا شور کر رہے تھے وہ چند ہزار تک ہی محدود رہا۔ تعجب اس بات کا ہے کہ پی پی پی جو اپنے دور میں کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ چکی تھی ، کیسے میاں صاحب کی کرپشن پر طوفان برپا کرنے کی دعویدار بن رہی ہے ۔ اگلے الیکشن میں عوام کا سامنا کیسے کرے گی۔ 2013سے تو وہ اپنی سیٹیں(ن)لیگ اور پی ٹی آئی سے گنواتی رہی ہے ۔پی ٹی آئی 2018کے الیکشن میں کیا پیش کر کے عوام سے ووٹ لے گی۔ خود اس کے اپنے صوبے کے حالات اس سے بھی بد تر ہو چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کیا کام کیا؟پی ٹی آئی اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ غبارے کی ہوا 4سال میں ہی نکل چکی ہے ۔ ایک سال کھینچنا بھی ناممکن ہوتا جارہا ہے ۔ اب آخری سوال ، اگر انصاف ہوگیا اور جھوٹ کا جھوٹ ثابت ہو گیا تو دنیا میں پاکستان جو پہلے ہی 3مرتبہ معزولی کا گینز ریکارڈ ہولڈر ہے ، چوتھی مرتبہ پاکستان اپنے ریکارڈ کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو کر سرخرو ہوگا یا مزید خوار ہو گا۔ آج ہی کی ایمنسٹی انٹر نیشنل کی خبر میں پاکستان شفاف قوموں میں 12نمبر پر بہتری میں آکر 106واں ملک بن گیا۔ ساتھ ساتھ یہ خبر بھی لگی کہ ڈیوس شہر میں میاں نواز شریف صاحب کی ملاقاتوں کا سلسلہ روک دیا گیا۔ کیونکہ سپریم کورٹ میں ان کے خلاف کرپشن اور بیرونِ ملک دولت جمع کرنے کے الزامات ہیں۔ ہمارے عرب اور قطری حکمران ان کو پھر بچانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ اللہ ہی جانے کون بشر ہے ۔ آج اگر وہ انشورنس کمپنی کا ایگزیکٹو زندہ ہوتا تو وہ شرمندہ ہو جاتاکہ اس کا بھی ریکارڈ ٹوٹ جاتا۔



.
تازہ ترین