• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ردالفساد اندرگھسے دشمنوں کے خلاف ،خالصتاًوطنی امن،آسودگی اور خوشنودی کے لئے۔پاکستان کرکٹ لیگ کا فائنل لاہور میں ہونا، ٹھہرچکا۔ وطن، خوشی سے جھوم اٹھا۔ کیا آغاز ہوگا ،ا سٹیڈیم میں موجود30ہزار شائقین باآواز بلند قومی ترانہ گائیں گے۔ گونج بذریعہ ٹی وی ا سکرین گھرگھر پہنچے گی، کروڑوںپاکستانی اپنی آوازملائیں گے۔ پچھلے 70سالوں سے ایسا موقع پہلے کبھی نہیںآیا۔ سیٹھی صاحب! 500روپے کی مد میں درجن بھر ٹکٹ خریدنا چاہتا ہوں، یقینی بنائیں۔ مجیب الرحمٰن شامی ، سجاد میر،منصور آفاق، رئوف طاہر، عزیزی، میرعلی، ارشاد عارف،ڈاکٹر حسین پراچہ، جامی کی معیت میں،ہم سب قومی ترانے میں اپنی آواز شامل کرنے کے متمنی ہیں۔ایک اور گزارش بھی، چند لمحات نکالیں، زرداری، عمران خان، بلاول، سراج الحق، فضل الرحمان، اسفند یار، فاروق ستار سب کو بلائیں تاکہ سب مل کر ٹیم اور20کروڑ آوازوں میں اپنی آواز ملائیں ، منظر تاریخی ہوگا۔ یقین دلاتا ہوں،دہشت گردایسی قومی یکجہتی کی دہشت سے ہی ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ کرکٹ بھلے سے اگلے دس سال نہ ہو، قوم 20سال تک نویں آسمان سے نیچے نہیں اترے گی۔
دو ہفتوں سے وطن عزیز غیر معمولی ، غیر مرئی قسم کی بے کیفی، بے چینی،بے اطمینانی کی شدت، بہتات، کثرت میںہے۔ ذمہ دارکون ؟ وجہ، دہشت گردی سے زیادہ سوشل میڈیا بمعہ مروج میڈیا ہی توہیں۔ دہشت گرد تو عرصے سے ، کہیں زیادہ وحشیانہ اور بھیانک کارروائیاں کر چکے ۔ بے چینی ، بے اطمینانی ، بے کیفی جگہ نہ بناپائی بلکہ پچھلے دس سالوں میں ریاست کی رٹ بتدریج مضبوط اور پائیدار ہی ہوئی۔ کراچی اور بلوچستان، جہاں دہشت گرد ، سیاسی ملبوسات میں سجے دھجے دندنا رہے تھے، آج فرار یاقرار میں سے ایک کو چننے پر مجبور۔
چند دن پہلے،لاہور میں گیس سلنڈرکا کیا پھٹنا تھا؟ میڈیا پرحادثہ کودہشت گردی بنا کر اچھالنا اور ایسی جہتوں کی تلاش میں جت جانا، وطن عزیز کی بدنامی کو عام رکھناجتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایسے موقع پرمیڈیا کا باجماعت گلبرگ لاہورمیں نام نہادجھوٹے دھماکے کی تشہیر کرنا،نہ صرف اہالیان لاہور بلکہ پورے پاکستان میں خوف وہراس پھیلاکر ہوش وحواس کو نشانہ بنانا، کسی طور قابل ِمعافی نہیں۔
یقیناً پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں منعقد کروانا خوش آئند قدم، جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ دوزا ویوں سے ناگزیر سمجھتا تھا۔نہ کروانے کا مطلب صاف، ریاست کی پسپائی اوردہشت گردوں کی کامیابی۔یقیناًلاہور کے کونے کھدرے میں بڑا دھماکہ یا کسی خاص مقام پر چھوٹا موٹا دھماکہ کروانا، دشمنان وطن کے لیے مشکل ضرور، ناممکن نہیں۔ کیا ایسے دھماکوں کے ڈرسے معمولات زندگی متاثر رکھیںگے۔مملکت کو بند کردیں، یہی کچھ دہشت گرد چاہتے تھے ۔ چند دن پہلے عمران خان بغیر لکنت ، حکومت کو فائنل کروانے کا عظیم مشورہ دے رہے تھے۔ خلوص اور سچائی کس مشورے میں ہے۔ کونسا مشورہ اخلاص پرمبنی اور کونسا بدنیتی پر۔ بفرض محال اگر میچ نہ کرواتے تو بلاول اور عمران کا بیانیہ کیارہتا ؟کہ ’’جو حکومت ایک میچ نہیں کرواسکتی ، اس کو فی الفور مستعفی ہو جاناچاہیے ‘‘۔ قائدین کی دوغلی اور یوٹرن پالیسی قابل رحم ہی تو ہے۔
فائنل کے انعقاد کا دوسرااہم پہلو،میڈیا کی پھیلائی یاسیت کے ماحول میںقوم کو Cheerکرنا تھا۔ قومی جوش و جذبے کونیا ا بال،بھرپور ابھار دیناہے۔ امریکی ناچ کود کا رواج، کھیلوں میں مقبول عام ہوچکا۔ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی اچھی پرفارمنس پر دوشیزائوں (Cheer Leaders) کی اچھل کود کی بدعت دبئی کرکٹ تک پہنچ چکی۔ چیر لیڈرزسے غرض نہ مطلب، میری حاجت اتنی کہ دونوں شریک ٹیموں میں جب ساڑھے تین گھنٹے کا مقابلہ ہوگا۔ پوری قوم کی دلجوئی اور پذیرائی رہے گی۔قوم اُٹھ کھڑی ہوگی۔میچ نے پاکستانی قوم کے مورال، جذبہ، جنون کوہی تو چارچاند لگا نے ہیں۔ اگلے دس سال تک یہ میچ قومی مقوی اور قوت بخش دواسمجھیں۔ بازاروں میں ویرانی ضرور،یقیناًگلیاں سُنجی رہیں گی۔اس کی وجہ اتنی کہ 20کروڑ لوگ میچ میں منہمک ، ڈوبے ہوں گے۔اے میرے بے بہرہ رہنمائو! معلوم بھی ہے کہ قومی ہلا شیری (Cheer) کے لیے یہ میچ کتنا اہم اورضروری ہے۔
پچھلے دو ماہ سے سوشل میڈیا اور بعض ملکی ذرائع ابلاغ پرجاری دہشت گردی کی تشہیر ، پاناما لیکس کے اوپر ہر طرح کی مبالغہ آرائی،پاکستان بارے منفی معاندانہ پروپیگنڈے کے تانے بانے دشمن ممالک کے لیے دلچسپی کا سامان رکھتے ہیں۔پاناما پر سوالات کی شدت بوچھاڑ میںاضافہ، سوشل میڈیا اور وطنی ابلاغیات پرترتیب و تشکیل شدہ ایسے ہی ماحول کا پرتو ہے ۔جب غلط بیانی اور معاندانہ رویوں کے پیامبر یقین دلاجاتے ہیں کہ حکومت وقت دم رخصت کے جوارمیں،بے ثباتی قوم کے تجسس میں اضافہ کر جاتی ہے۔ وطنی بے یقینی دشمن کے گھر دئیے روشن رکھتی ہے۔
پچھلے ہفتےPSL میچ اور فائنل کا انعقاد خبروں کا حصہ ضرور رہے ۔ پاناما لیکس کیس کسی طور آنکھ اوجھل نہ رہا۔ 2014 کے دھرناون پروگرام ہو یا پاناما لیکس( دھرنا ٹو)، لواحقین ، متاثرین معتقدین کو یقین تھا کہ نوازشریف کی رخصتی ہوا چاہتی ہے۔ ’’امپائر اگلے 24گھنٹے میں انگلی اٹھانے کو، (اس دفعہ) عدالت کافیصلہ نازل ہونے کو‘‘۔ الیکشن دھاندلی کو ثابت شدہ سمجھا ، پاناما لیکس الزامات کو پتھر پر لکیر جانا۔ بدقسمتی کہ ہمارے قومی سیاستدانوں کو شہرت چاہیے، چاہے مہنگی، سستی یاکوڑے کے ڈھیر پر سے اٹھانی پڑے،شہرت کے لیے ہرانتہا پر جانے کو تیار۔ ایسے سیاستدانوں کی بہتات اور موجودگی میں دو اداروں فوج وعدلیہ کی مضبوطی، مربوطی، ساکھ غیرمتنازع رہنا، آج کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان سنگین صورت حال سے دوچارہے۔ کٹھن سفر جاری ہے۔دشمن کا آخری وار کاری، جاری ہے۔ان شاء اللہ وار ناکارہ جائے گا۔ پارلیمان اور عدلیہ دوادارے ،جن کی آزادی ،خودمختاری آئین کی اساس ہیں۔عدلیہ سے امیدیں کچھ زیادہ چنانچہ گلے شکوے کی گنجائش بھی ۔
خیر آخر میں بس گزارش اتنی کہ PSL کا فائنل جو مقام ہمت، جذب، شوق، حوصلہ، خوداعتمادی دے جائے گا، برقرار رکھنے کے لئے سیاستدان ،عدلیہ اور افواج پاکستان کے وطیروں، فیصلوں اور رویوں نے مضبوط و مربوط بنانا ہے۔ دشمنان وطن افراتفری، انارکی ،بے چینی،بے کیفی، یاسیت پھیلانے کے متمنی، ناکام بناناہوگا۔



.
تازہ ترین