• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں گھریلو ملازمین پر ظالمانہ تشدد کی خبریں متواتر سامنے آرہی ہیں جو یقیناًایک نہایت تشویشناک رجحان ہے۔ اس حوالے سے منظر عام پر آنے والا ایک تازہ واقعہ یہ ہے کہ ملتان میں خاتون خانہ نے گیارہ سالہ گھریلو ملازمہ شبانہ کو معمولی سی غلطی پر آہنی راڈ سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جس سے بچی کی حالت غیر ہو گئی بعد ازاں عنبرین نامی خاتون اور اس کا شوہر ندیم اسے علاج کے لئے نجی اسپتال چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ اطلاع ملنے پر پولیس نے متاثرہ بچی کو اپنی تحویل میں لے کر نشتر اسپتال منتقل کر کے کارروائی شروع کردی۔ یہ کارروائی کہاں تک موثر ہو سکے گی اس بارے میں ابھی سے شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے ہیں اور شاید یہ کارروائی بھی ویسی ہی ہو جیسی اسلام آباد کے طیبہ کیس میں ہوئی۔ کسی ایسے کیس کی نشاندہی مشکل ہے جس میں ملزمان کو ان کے کئے کی سزا ملی ہو۔ اکثر و بیشتر واقعات میں مالکان کے تشدد کا نشانہ بننے والوں کو ڈرا دھمکا کر بیان بدلنے پر مجبور کردیا جاتا ہے بلکہ زیادہ تر واقعات کی خبر گھر سے باہر ہی نہیں نکلنے دی جاتی۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں، ایک تو یہ کہ ان لوگوں کے ہاتھ قانون سے زیادہ لمبے ہوتے ہیں یا پھر ابھی تک ایسا قانون ہی نہیں بنا جو ان ’’لمبے ہاتھوں‘‘ کو گرفت میں لے سکے۔ بھٹہ مزدور تو نسل در نسل غلام چلے آرہے ہیں، ملک کے انتہائی دور دراز بعض علاقے ایسے ہیں جہاں عملاً بھٹہ مالکان کی حکومت ہے اور ریاست کے قوانین معطل ہیں۔ اب تک میڈیا کے ذریعے گھریلو ملازمین پر بہیمانہ تشدد کے بہت سے واقعات منظر عام پر آچکے ہیں لیکن سزا پانے والا شاید ہی کو ہو۔ اس غیر انسانی رویے کا تدارک اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کی رو سے حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مؤثر قانون سازی کی جائے ، ملازمین کو بھی ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے، انہیں قانونی معاونت فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔

.
تازہ ترین