’’کبھی یہ خبر نہیں سنی کہ تھر میں غذائی قلت سے کوئی شخص مرا ہو۔ اگر تھر میں ایک دن یا تین دن کا بچہ ہلاک ہوجائے تو سندھ حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ تھر میں 16 لاکھ کی آبادی ہے، حکومت ہر گھر میں نہیں جاسکتی۔‘‘ یہ الفاظ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کے ہیں جو انہوں نے گزشتہ دنوں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہے۔ جناب وزیراعلیٰ صاحب! آپ نے ’’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے‘‘ والی بات کی ہے یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ میڈیا پر مسلسل آرہا ہے کہ تھر میں غذائی قلت کی وجہ سے کل کتنے تھری جاں بحق ہوگئے اور آج اتنے مرگئے ہیں۔ اسپتالوں میں بنیادی ضروریات نہ ہونے کی وجہ سے معصوم بچے فریادی بن کر دنیا سے جارہے ہیں۔ صرف گزشتہ ایک ہفتے کے اخبارات ہی دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے کہ سات دن کے دوران کتنے بچے مرے ہیں؟ ہماری معلومات کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 12بڑے، 9خواتین، 52 مائوں کی گودیں اُجڑگئی ہیں۔ یہ تو آج ہی کی خبر ہے: ’’تھر میں بنیادی صحت مرکز بند ہونے کی وجہ سے مزید 5 کمسن بچے دم توڑ گئے۔ مرنے والوں میں کلوئی شہر کے 3 اور 4 دن کے دو شیر خوار بھی شامل ہیں جبکہ مٹھی اسپتال میں 2 سال کی ایک بچی بھوک اور بیماری کی بھینٹ چڑھ گئی۔ سول اسپتال مٹھی میں 30 اور ضلع میں اب بھی 100سے زائد بچے مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔ دوسری جانب تھرپارکر میں 130بنیادی صحت کے مراکز ہیں جن میں سے صرف 30فعال ہیں، جبکہ 100 مراکز میں طبی عملہ ہے، نہ ہی وہاں ضروری ادویہ اور دیگر سامان موجود ہے۔‘‘ گزشتہ ہفتے ہم خود اپنی آنکھوں سے وہاں کے حالات دیکھ کر آئے ہیں۔ عمر کوٹ کی تحصیل ’’چھاچھرو‘‘ سے آگے ہم ’’کھیکھڑے‘‘ پر سوار ہوکر سرحد کے قریبی علاقوں پنجلائی بستی، لالوکاتڑ بستی، مٹڑیو بستی، کیتاڑی بستی، تڑاکا بستی، بہچو بستی، خیر محمد بستی، میر خان بستی، محمد علی بستی، نور محمد بستی، دریاخان بستی، فقیر بستی، خالد کی بستی، مولوی شہاب الدین بستی، میٹھل بستی… کی طرف چل پڑے۔ 2 گھنٹے لق و دق صحرا میں چلنے کے بعد ہم عصر کی نماز کے لیے پانی کی تلاش میں ایک قدیم کنویں پر پہنچے۔ یہ جملانی بستی کے مضافات میں واقع تھا۔ کنویں کے اردگرد لوگوں اور جانوروں کا ایک ہجوم تھا۔ خواتین کے سروں پر مٹکے تھے۔ ننگے پائوں بچوں اور پھٹے پرانے کپڑے پہنی بچیوں نے گدھوں پر چمڑے کے مشکیزے لادے ہوئے تھے۔ یہ سب اپنی اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ گائوں کے نوجوان اور بوڑھے چمڑے کے ڈولوں سے بڑی محنت اور مشقت سے تھوڑا تھوڑا پانی نکالنے میں مصروف تھے۔ وہ ڈول کھینچتے کھینچتے دور تقریباً ربع کلومیٹر تک جاتے اور پھر واپس آتے۔ تھر میں پانی اوسطاً 4 سو سے 6 سو فٹ نیچے ہوتا ہے۔ ہمیں پانی کے انتظار میں کھڑے کھڑے مغرب ہوچکی تھی۔ بڑی مشکل سے دو لوٹے پانی ملا۔ منہ میں ڈالا تو نمکین۔ پوچھنے پر پتا چلا یہاں پر ایسے نمکین پانی کو میٹھا پانی ہی سمجھا جاتا ہے۔ قریب کھڑے ایک شخص نے بکریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ 60بکریوں میں سے 11بکریاں رہ گئیں۔ باقی قحط کی وجہ سے مرگئی ہیں۔ دوسری طرف کانٹوں کے احاطے میں ایک ہی جھگی تھی۔ اس میں 7معصوم بچے دوپہر کا کھانا کھارہے تھے۔ کھانے میں صرف باجرے کی روٹی تھی جو بکری کے پانی ملے دودھ کے ساتھ کھارہے تھے۔ تین بچے شلوار سے محروم تھے جبکہ کسی کے بھی پائوں میں چپل نہ تھی۔ ٹھنڈی ریت پر یونہی بیٹھے تھے۔ سردی کی وجہ سے بچوں کی ناک بہہ رہی تھی۔ ہم سے جو کچھ ہوسکا فوری مدد کی۔ ہم نے تاریخ میں پڑھا تھا کہ صومالیہ اور ایتھوپیا کے قحط کے دوران امدادی کارکنوں نے اتنے بھیانک مناظر دیکھے تھے کہ روتے روتے ان کی آنکھیں خشک ہوگئی تھیں۔ تھر کا یہ قحط اور تھری لوگوں کی حالتِ زار دیکھ کر ہماری آنکھوں کے سامنے بھوک و افلاس کے تاریخی منظر گردش کرنے لگے۔ تھر میں گھومتے پھرتے، دیکھتے ہوئے یوں لگا جیسے پتھر کے زمانے میں یہ لوگ جی رہے ہیں۔ وہی دور دور پانی کے کنویں، اونٹوں اور گدھوں پر سواری اور سامان کی منتقلی، نہ بجلی نہ گیس نہ فون، لکڑیوں اور گھاس پھوس کے تنوں سے بنے جھونپڑے، نہ روڈ نہ گاڑی، نہ استادنہ اسکول، نہ ڈاکٹر نہ دوائی… سب کچھ اپنی مدد آپ کے تحت اور خدا کے آسرے پر ہورہا ہے۔ اس وقت تھر کے لوگوں کو چار بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ نمبر 1، پانی کی قلت ہے۔ کنوئوں سے پانی نکالنے کے لیے موٹروں اور جنریٹروں کی ضرورت ہے۔ نمبر 2، کھانے کے لیے خوراک کی اَشد ضرورت ہے۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے لوگوں کی پسلیاں نکلنے لگی ہیں۔ وافر مقدار میں خوراک تقسیم کرنی چاہئے۔ نمبر 3، صحت کے سنگین مسائل ہیں۔ ادویہ اور ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ فرسٹ ایڈ کا سامان درکار ہے۔ نمبر 4، گرم لحافوں، کپڑوں اور جوتوں کی فوری ضرورت ہے۔ ٹھنڈی ریت میں بچے بیمار ہو ہوکر مررہے ہیں۔ تعلیم بھی ضروری ہے۔ اکثر بچوں نے اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا۔ گائوں اور بستیوں سے شہر آنے کیلئے راستے بھی نہیں ہیں۔ سڑک اور ٹرانسپورٹ بھی لازمی ہے۔ اے اہلِ ثروت اور عیش پرست حکمرانو! ذرا پلٹ کر دیکھو۔ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم کتنی حسرت آمیز نظریں آپ کے چمکتے دمکتے روپ پر جمی ہوئی، آپ کی توجہ کی طالب ہیں۔ اگر آپ اپنی خوشیوں اور آسائشوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی اپنے ساتھ شامل رکھیں۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان فاصلہ آئے دن بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ یاد رکھیں! خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں۔ یقین کریں آپ کے ایثار کا یہ مرہم غربت کے ہاتھوں زخم خوردہ روحوں کو سکون دے گا اور آپ بھی خدا کی رحمتوں کے بیش بہا خزانے کی کنجی پالیں گے۔ جب عوام دیکھتے ہیں کہ ہمارا حکمران ہماری بھلائی اور فلاح میں لگا ہوا ہے۔ ہمارے دکھ درد میں برابر کا شریک ہے تو پھر وہ بھی اپنے حکمرانوں کے ساتھ مخلص ہوجاتے ہیں۔