• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے نظام کا یہ کمال ہے کہ مبینہ کرپٹ کو پکڑ کراُس پر اربوں کھربوں کی کرپشن کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد اُسی مبینہ چور ڈاکو لٹیرے کو نہلا دہلا کر ہیرو بنا کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ یہ سسٹم کرپشن اور کرپٹ کو بچانے کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ جن پر ایک وقت میں یہی سسٹم ملک کے خزانے لوٹنے کے سنجیدہ الزام لگاتا ہے انہی کو کچھ عرصہ کے بعد اس طرح آزاد کیا جاتا ہے کہ چھوڑے جانے پر ایسے افراد پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں، اُن کا جیل سے نکلنے پر ایسا استقبال کیا جاتا ہے جیسے کوئی ہیرو پیدا ہو گیا ہو۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ کرپشن ہوئی، پیسہ لوٹا گیا، ملکی خزانے پر ڈاکہ زنی کی گئی لیکن کس نے یہ کیا کبھی ثابت نہیں ہوتا۔ آصف علی ذرداری پر کون کون سے الزامات نہیں لگے، کرپشن کے کون کون سے ریکارڈ قائم کیے گئے لیکن زرداری صاحب کو سالوں جیل میں رکھنے کے باوجود ثابت کچھ نہیں ہوا۔ دنیا اُنہیں جس نام سے بھی جانتی ہو لیکن زرداری صاحب سینہ پھیلا کر کہتے ہیں کہ اُن پر جھوٹے مقدمے بنائے گئے اورکچھ ثابت نہیں ہوا۔ سسٹم کی مہربانی کہ زرداری صاحب تمام تر الزامات کے باوجود مرد حُر کہلائے۔ ڈاکٹر عاصم پر دہشتگردی کے ساتھ ساتھ 450 ارب روپیے کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے لیکن ثابت کچھ نہ ہوا اور اب انہیں ہیرو کی طرح جیل سے باہر لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ شرجیل میمن پر بھی لوٹ مار کے الزامات لگائے گئے اور کہا گیا کہ انہوں نے اربوں کمائے لیکن ملک واپسی پر اپنے علاقے میں جانے پر اُن کا ہیروز کی طرح استقبال کیا گیا۔ جلوس میں انہیں لے جایا گیا اور حفاظت کے لیے رینجرز کو ذمہ داری دی گئی۔ پی پی پی کی گزشتہ حکومت کے وزیر مذہنی امور کو چار سال سے زیادہ جیل میں رہنے کے بعد حج کرپشن کیس میں بری کر دیا گیا اور اُن کا بھی زبردست انداز میں استقبال کیا گیا۔سسٹم کاکمال یہ ہے کہ پاناما لیکس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا لیکن ہمارے نظام کے لیے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف اور شریف فیملی سے لندن فلیٹس اور آف شور کمپنیوں کو نوے کی دہائی سے جوڑا جا رہا ہے لیکن ہمارے نظام کو حکمران فیملی سے یہ پوچھنے کی بھی توفیق نہیں کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ جن کمپنیوں اور لندن کی جائیداد سے اُن کو گذشتہ بیس پچیس سال سے جوڑا جا رہا تھا انہی کی ملکیت کیسے 2006 میں اُن کے پاس آ گئی۔ بلکہ ایسا ہی زرداری صاحب کی اسلام آباد سنگجیانی میں ہزاروں کنال زمین کا احوال ہے۔ نظام نے نوے کی دہائی میں الزام لگایا کہ یہ زمین زرداری صاحب نے اپنے فرنٹ مین کے ذریعے خریدی۔ زرداری صاحب نے انکار کیا لیکن گزشتہ پی پی پی دور میں وہی زمین زرداری صاحب کے نام منتقل ہو گئی اور نظام کو کچھ خبر ہی نہ ہوئی۔ نظام کا کمال دیکھیں کہ عدلیہ نے اپنی انکوائیری میں مانا کہ ایس جی ایس، کوٹیکنا اور اے آر وائے گولڈ کے فیصلوں میں ملزموں کر بری کرنے میں متعلقہ احتساب عدالتوں کے دو ججوں کا مبینہ ملاپ نظر آتا ہے لیکن نہ تو یہ کیس دوبارہ کھولے جا سکتے ہیں اور نہ ہی متعلقہ ججوں کو سزا دی جاسکتی ہے کیوں کہ دونوں جج ریٹائر ہو چکے۔ یعنی سب کو علم ہے کہ فیصلوں میں گھپلا تھا لیکن نظام کہتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ جہاں تک جنرل پرویز مشرف کی بات ہے یا کسی دوسرے ریٹائر جنرل کی تو نظام کی پہنچ سے یہ حضرات بالا ہیں۔ نظام کی کیا جرات کہ ان سے سوال کرے چاہے الزامات کی نوعیت کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو۔ یہی اس نظام کی ’’خوبصورتی‘‘ ہے کہ اسے نہ موجودہ حکومت نے تبدیل کیا، نہ پی پی پی کو کبھی ایسا کرنے میں دلچسپی ہوئی۔ جہاں تک جنرل مشرف کا تعلق ہے تو وہ تو جو بچا کچھا نظام تھا اُسے بھی چیڑ پھاڑ کر اپنی مرضی کا اور اپنی منشاء کا نظام بنا کر اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے چکر میں ہی رہے۔ کرپشن، نا اہل حکمرانی اور اختیارات کا بے جا استعمال پاکستان کے نظام اور ملکی مسائل کی جڑ ہیں۔ گلے سڑے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے بغیر کسی بہتری کی یہاں توقع نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کون کرے گا۔


.
تازہ ترین