تقسیم ہند سے قبل مسلمانوں کو خدشہ تھا کہ کانگریس اقتدار میں آنے کے بعد ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دیدے گی مگر اردو کو سرکاری زبان بنانے کا خواب تو پاکستان حاصل کرنے کے بعد بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا، کیونکہ ہماری خودسر بیورو کریسی نے کبھی اردو کی ترویج کو اہمیت ہی نہ دی بلکہ مشرقی پاکستان سمیت پانچوں صوبوں کی مادری زبانوں کو لاوارث رکھنے کیلئے اردو کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد لیاقت علی خان نے چوہدری محمد علی برانڈ بیورو کریسی کے آگے ہتھیار ڈال دیئے اور اردو کو سرکاری دفاترمیں تو رائج نہ کیا جا سکا، البتہ 50ء کی دہائی کے اواخر میں پاکستان کو سماجی و تعلیمی طبقوں میں بانٹنے کیلئے سرکاری درسگاہوں میں اردو کو تدریسی میڈیم کے طور پر ضرور اپنا لیا گیا جبکہ اشرافیہ کے تعلیمی اداروں میں انگریزی کی تدریس کو ہر سطح پر برقرار رکھا گیا، نتیجتاً اردو میڈیم کے امیدواروں کیلئے سول سروس کا امتحان جوئے شیر لانے کے مترادف جا ٹھہرا اور ہر بار معدودے چند امیدوار ہی انگریزی میڈیم کے رئیس زادوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو پاتے۔ مادری زبانوں کو قومی اور سرکاری زبانوں کا درجہ دِلوانے کیلئے سب سے زیادہ جدوجہد بنگالیوں اور سندھیوں نے کی‘ بنگالی کو قومی زبان کا درجہ نہ دیئے جانے پر مشرقی پاکستان کے طلبہ نے احتجاجی تحریک شروع کی تو21 فروری1952ء کو ڈھاکہ میں انکے جلوس پر فائرنگ کے نتیجہ میں لسانی نفرت کے شعلے مزید بلند ہوگئے، بالآخر اردو کی معیت میں بنگالی زبان کو قومی زبان مان تو لیا گیا تاہم سرکاری زبان پھر بھی انگریزی ہی رہی۔ یونیسکو نے ’’21فروری‘‘ کو ڈھاکہ کے اسی سانحہ سے منسوب کر کے ’’قومی زبانوں کا دن‘‘ قرار دیا ہوا ہے۔ بعینہٖ سندھ میں بھی 1958ء کے مارشل لاء کے دوران سندھی زبان کی تدریس پر پابندی عائد کر دی گئی مگربنگالی زبان کے سخت مخالف ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں سندھی کو سرکاری زبان بنانے کا قانون سندھ اسمبلی کے ذریعے نافذ کر دیا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ پاکستان میں قوم پرستوں کی زبانوں سندھی‘ پشتو اور بلوچی نے اپنی مدد آپ کے تحت ترقی کی راہ ہموار کر لی مگر پنجابی زبان آزادی کے مسلسل 70 سال بعد بھی سرکاری و ادبی سرپرستی سے محروم ہے اور دنیا میں آج اسے محض مشرقی پنجاب کی وجہ سے جانا جاتا ہے، مشرقی پنجاب نے پنجابی زبان و ادب میںبین الاقوامی سطح پر بھی بہت کام کیا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں پنجابی کی ترویج کیلئے بنائے گئے سرکاری ادارے کروڑوں کے فنڈز ڈکارنے کے بعد بھی پنجابی کی ایک ’’اکھرکوش‘‘ تک مرتب نہیں کر سکے‘ پنجابی زبان کی ترویج کا ادارہ تو اتنے نااہل لوگوں کے ہتھے چڑھا ہوا ہے جو شاہ مُکھی (پاکستانی پنجابی) کی املا، رسم الخط اور کی بورڈ تک متعارف نہیں کروا سکے‘ یہی وجہ ہے کہ پنجابی زبان چاروں صوبائی زبانوں کے مقابلے میں یہاں تک لاوارث ہو کر رہ گئی ہے کہ گوگل نے بھی اپنے سرچ انجن پر اردو کیساتھ سندھی اور پشتو کا آپشن تو ڈالا ہوا ہے مگر پنجابی کو مکمل نظر انداز کردیا ہے، جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان کی سب سے بڑی علاقائی زبان ہونے کی وجہ سے گوگل سرچ پر پنجابی کو اردو کے بعد اہمیت دی جاتی۔ اس میں گوگل کا قصور نہیں، یہ زیادتی صریحاً پنجاب کے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی ہے۔ انٹرنیٹ پر آج اردو میں بھی جتنا ذخیرہ موجود ہے (جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں) وہ صرف انڈین اردو بورڈ اترپردیش کا معرکہ ہے جسے ہندوستان سرکار کی سرپرستی حاصل ہے۔ انڈیا میں ہندی زبان کو قومی زبان قرار دینے کا معاملہ انتہائی مشکلات کا شکار رہا‘ ہر ایک ریاست مصر تھی کہ اس کی ثقافتی زبان کو راشٹریہ بھاشا قرار دیا جائے‘ بڑی اُٹھ بیٹھ کے بعد بھارتیہ راج سبھا نے 21علاقائی زبانوں کو قومی زبانوں کا مرتبہ دینے کیساتھ ان سب زبانوں کو انڈین سول سروس کے امتحانات کے جوابات کے میڈیم اور فہرست میں شامل کر لیا تاہم تعلیم کا بین الاقوامی معیار برقرار رکھنے کیلئے یہ بھی لازمی قرار دیا کہ مقامی زبان میں امتحان دینے والوں کو انگریزی کا 200 نمبروں کا پرچہ بھی حل کرنا ہوگا۔ بھارت کی ان مقامی زبانوں میں اردو بھی شامل ہے جو ریاست اترپردیش کے واسیوں کیلئے بھوجپوری کے متبادل کے طور پر منتخب کی گئی ہے‘ مسلمان امیدواروں کیلئے یہ ایک پلس پوائنٹ ہے‘ یو پی کے انڈین اردو بورڈ کی خدمات سے پاکستان کے طلبہ بھی بھرپور استفادہ کر رہے ہیں لیکن ہمارے یہاں نصف صدی سے قائم مقتدرہ قومی زبان کا ادارہ گنتی کے کچھ تراجم اور ’’وضع اصطلاحات‘‘ سے آگے نہیں بڑھ پایا اور نیٹ پر اس کی جو ایک آدھ لغت موجود ہے اس کی ویب سائٹ بھی تکنیکی خرابی کا شکار ہے۔ حکومتی سطح پر پاکستان میں پنجابی کی طرح اردو کا بھی کوئی والی وارث نہیں ہے۔ نفاذِ اردو کو آئینی جواز فراہم کرنے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو جیسا دبنگ سیاست دان بھی طاقت ور بیورو کریسی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا اور اردو کو سرکاری زبان قرار دینے میں لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔ اردو کے ساتھ پیہم اجنبیوں والا سلوک ہوتا دیکھ کر دو سال قبل جب جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلہ سنایا کہ وفاقی حکومت تمام خودمختار سرکاری اداروں اور وزارتوں میں انگریزی کی جگہ اردو کو نافذ کرے اور جملہ حکومتی عہدیداران اندرون و بیرون ملک انگریزی کے بجائے اردو میں تقریر کریں، تب بھی ’’بابو ایمپائر‘‘ نے اردو کی دال نہیں گلنے دی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی پاسداری کیلئے حکمران اتنے بے بس نظر آئے کہ سرکاری دفاتر تو کجا، وزارتوں کو بھی نفاذِ اردو کا ایک نوٹیفکیشن تک جاری نہ کر سکے‘ہمارے چیئرمین سینیٹ صاحب نے اُس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو’’ سستا اور فوری انصاف‘‘ پر خطاب کیلئے سینیٹ میں مدعو کیا تو خود بھی انگریزی میں تقریر کی اور چیف جسٹس سے بھی انگریزی میں سوالات کئے، جس پر انہیں بھی مجبوراً انگریزی میں جوابات دینا پڑے۔ (جاری ہے)
.