• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئندہ عام انتخابات کے لئے ملک کی تینوںبڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ ،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے ۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے پنجاب اور ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے سندھ میں اپنی اپنی جماعتوں کے کارکنان کو متحرک کرنا شروع کر دیا ہے۔ آصف زرداری نے پنجاب میں پارٹی قائدین اور کارکنان کو منظم کرنے کے لئے بہت سے اعلانات کر ڈالے ہیں جن میں تخت لاہور کو فتح کرنے والا بیان سب سے زیادہ اہم ہے جبکہ میاں نواز شریف نے بحیثیت وزیراعظم گزشتہ دنوں حیدر آباد میں منعقد کیے جانے والے ورکرز کنونشن کے دوران حیدر آباد اور کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے ڈیڑھ ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا ۔ میاں نواز شریف نے کنونشن سے اپنے خطاب میں کراچی کے کچرےکے ڈھیر اور دھول مٹی کا بھی ذکر کر دیا۔ ڈیڑھ ارب کے ترقیاتی پیکج کے اعلان پر پیپلز پارٹی کی سنجیدہ اور سیاسی طور پر باشعور قیادت نے اسے وزیراعظم کی جانب سے مثبت اقدام قرار دیا لیکن پی پی پی کے انہی رہنمائوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ نواز شریف کو اپنے دور وزارت کے چار سال بعد سندھ میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا خیال آیا ورنہ گزشتہ برسوں میں ان کی زیادہ توجہ پنجاب پر مرکوز تھی۔ آصف زرداری اس بار ملک کے دیگر تین صوبوں کی نسبت پنجاب پر زیادہ فوکس کر رہے ہیں اور انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے راولپنڈی میں واقع حلقہ میں جلسہ کرنے اور اپنا امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان بھی کیا ہے ۔ آصف زرداری اپنے بیانات میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی پارٹی نے پچھلے چار برسوں کے دوران مفاہمتی سیاست کرنے کا جو انداز اختیار کیے رکھا اب اسے ہمیشہ کے لئے خیر باد کہتے ہیں اور آئندہ دنوں میں ان کی پارٹی نواز حکومت کے خلاف جارحانہ اننگز کھیلے گی۔ ن لیگی قیاد ت نے آئندہ انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے سندھ میں فنکشنل لیگ اور ن لیگ کے روٹھے ہوئے سیاسی رہنمائوں اور کارکنان کو منانے کے لئے کوششیں تیز کر دی ہیں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ کی سیاست میں اس بار پیر پگاڑا زیادہ متحرک نظر نہیں آ رہے جبکہ ان کی نسبت ان کے چھوٹے بھائی سید صدرالدین شاہ جو اب بھی وفاقی کابینہ میں شامل ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں بھی ن لیگ کی حکومت بنوانے کے لئے فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں،متحرک ہیں۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر سندھ محمد زبیر آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے سرگرم ہو چکے ہیں دوسری جانب ن لیگی قیادت نے کے پی میں اپنی کامیابی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے مسلم لیگ ن یہاں پر حکومت بنائے گی۔ سیاسی ماحول میں گرمی کی بڑھتی ہوئی تمازت کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے قائدین کے درمیان شروع ہونے والی حالیہ محاذ آرائی اور مخالفانہ بیان بازی محض نورا کشتی ہے انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف نے پانامہ کیس سے ڈر کر آصف زرداری سے ڈیل کی میگا کرپشن میں ملوث ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت، شرجیل میمن کی واپسی اور ماڈل ایان علی کی بیرون ملک روانگی اسی ڈیل کا نتیجہ ہے ۔ کپتان نے کہا کہ ڈاکٹرعاصم نے 480 ارب روپے کی کرپشن کی ہے یہ پیسہ شریف خاندان کا نہیں بلکہ عوام کا ہے اور اس ایشو پر ہم چپ نہیں رہ سکتے ہماری خاموشی سے سمجھا جائے گا کہ ہم بھی اس میںملوث ہیں۔ حکمران جماعت ن لیگ اور ملک کی دیگر دو بڑی سیاسی قوتوں کے درمیان بیان بازی کا سلسلہ شدت اختیار کر چکا ہے جس سے اس تاثر کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ عام انتخابات 2018ء سے قبل ہی ہو جائیں گے ۔ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنما جہاں ایک دوسرے پر کرپشن سمیت دیگر الزامات عائد کر رہے ہیں وہیں تینوں جماعتیں نئی سیاسی صف بندیاںکرنے میں بھی مصروف نظر آ رہی ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ سندھ میں فنگشنل لیگ کے ساتھ ساتھ پاک سر زمین پارٹی سے بھی الحاق کر سکتی ہے جس کے لئے کوششیں شروع کی جا چکی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں ن لیگ کا اتحاد جے یو آئی ف اور اے این پی کے ساتھ قائم ہو جائے گا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی پنجاب میں مسلم لیگ ق سے ہاتھ ملانے کی تیاری کر رہی ہے اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی طرف سے ق لیگ کی اعلیٰ قیادت کو پیغام بھی پہنچا دیا گیا ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید احمد نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ اگروہ ملک بھر بالخصوص پنجاب میں کامیابی حاصل کرنے کے خواہاں ہیں تو انہیں چھوٹی جماعتوں سے روابط استوار کرنا ہوں گے تا کہ انہیں مطلوبہ اہداف و نتائج حاصل ہو سکیں۔ اس تمام تر صورتحال کے نتائج کیا نکلتے ہیں ۔ آئندہ انتخابات کے لئے سیاسی منظر نامہ کیسا ہوتا ہے یہ آنے والے دنوں میں عیاں ہو جائے گا لیکن تینوں بڑ ی سیاسی جماعتوں کی نئی صف بندیوں کے حوالےسے خیال کیاجا رہا ہے کہ نواز شریف نے 2013ء کی انتخابی مہم میں ملک سے بجلی کا بحران 2018ء تک ختم کرنے کی نوید سنائی تھی اگر اس بار گرمیوں میںجب بجلی کی طلب میں یکدم اضافہ ہوگا تو کیا ہوگا؟ یہ ن لیگ کے لئے کڑے امتحان کا وقت ہے جبکہ ایک تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں کارکردگی کے سوا کسی معاملہ کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔ ن لیگ حکومت سی پیک سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے توا سے لوڈشیڈنگ کے حوالے سے بھی سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب نظریات کی بجائے سیاست میں سرمایہ کا عمل دخل زیادہ ہے جو پارٹی اپنی انتخابی مہم میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرے گی وہی آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکے گی بعض ذرائع کے مطابق مستقبل قریب میں تبدیلی کی چاپ بھی سنائی دے رہی ہے اور پانامہ کیس کا فیصلہ جو بھی ہو گزشتہ 30 سالوں سے جاری سیاست کروٹ لینے جا رہی ہے اگر پانامہ کیس کا فیصلہ حکومت کے خلاف آتا ہے تو ن لیگ کے لئے آئندہ انتخابات میں مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ہمارے خیال میں بلوچستان میں اس بار بھی مخلوط حکومت بنے گی۔ پیپلز پارٹی جو آئندہ انتخابات میں پنجاب سے فیصلہ کن برتری حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے وہ پنجاب میں ن لیگ اور تحریک انصاف کی لڑائی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کی فضا صرف ایک ماہ قبل بنتی ہے کیونکہ 2008ء کے انتخابات میں ق لیگ کے پاس تمام امیدوار جیتنے والے تھے اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے ساتھ تھی ترقیاتی کاموں کا ریکارڈ بھی موجود تھا لیکن ایسی ہوا چلی کہ سب کچھ اڑا کر لے گئی۔جنوبی پنجاب کی سیاست پر بات کی جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی طرف مائل ہوں تو ن لیگ کی نشستیں کم کی جا سکتی ہیں۔ آصف زرداری اس بارے میں سنجیدگی سے سوچ بچار کر رہے ہیں مگر فیصلہ کن کردار عوام کا ہے ان کے اپنے روز مرہ کے مسائل ہیں وہ اپنے بچوں کے لئے بہترین تعلیم، امن و امان، انصاف اسپتالوں میں معیاری علاج، روز گار اور معاشی آسانی چاہتے ہیں جو ان کی زندگی میں آسودگی لائے گا وہ ان کا سیاسی ہیرو ہوگا۔

.
تازہ ترین