اسلام آباد (حنیف خالد) ملک میں کاغذ اور گتے کی کھپت اور ملکی صنعت میں پیپر اینڈ بورڈ ملوں کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے ، ڈائریکٹر جنرل آئی اینڈ آئی۔ آئی آر، خواجہ تنویر احمد نے ایک مطالعاتی رپورٹ کا اہتمام کیا جس سے پتہ چلا کہ اس سیکٹر کی طرف سے بحیثیت مجموعی بہت کم سیلز ٹیکس جمع کروایا جارہا ہے۔ اس صنعت کے بڑے کارخانہ داروں کی اکثریت بہت زیادہ ان پٹ کلیم کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اس کے سیلز ٹیکس ادائیگی بہت کم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ڈائریکٹر جنرل نے اپنے ماتحت تمام ڈائریکٹوریٹس کو ہدایات جاری کیں کہ اچھے ٹیکس گزاروں کو تنگ کئے بغیر ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ اسی تناظر میں لاہور ڈائریکٹوریٹ نے مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر گوجرانوالہ میں قائم ایک پیپر مل اپنے ایک ڈائریکٹر محمد ایوب کے غیر ظاہر شدہ بینک اکاؤنٹس کو چھپائی گئی سیلز اور پرچیز کی ادائیگی اور وصولیوں کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ محمد ایوب جو انکم ٹیکس میں ایک تنخواہ دار کے طور پر رجسٹرڈ ہے نے ٹیکس گوشوارہ جات برائے 2011اور 2012 میں فی سال اپنی سالانہ آمدنی 3 لاکھ 60 ہزار ظاہر کی ہے۔اس کے برعکس اس کے بینک اکاؤنٹس میں 2011 میں تقریباً 9 کروڑ 58 لاکھ روپے اور 2012 میں تقریباً 11 کروڑ 77 لاکھ روپے جمع کروائے گئے۔ بینک کھاتوں کی مزید چھان بین سے ظاہر ہوا کہ ان اکاؤنٹس میں رقوم جمع کروانے والے 80 لوگوں کا تعلق کاغذ اور گتے کے کاروبار سے ہے۔ یعنی پیپر مل کے خریدار وغیرہ اور انہوں نے ہر دو سال میں 9 کروڑ سے زائد رقم ان اکاؤنٹس میں جمع کروائی۔ مزید برآں پیپر مل کے بجلی کے بلوں کی ادائیگی اور ایک بڑے سپلائر کو بھی انہی اکاؤنٹس سے ادائیگی کی گئی۔ یہ تمام حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ پیپر مل نے 2011 میں 9 کروڑ 58 لاکھ اور 2012 میں 11 کروڑ 77 لاکھ کی سیلز چھپائی ۔ قومی خزانے کو انکم ٹیکس کی عدم ادائیگی کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 2011 کے لئے 6 کروڑ 37 لاکھ (بشمول 3 کروڑ 18 لاکھ کا جرمانہ) اور 2012 کے لئے 7 کروڑ 76 لاکھ (بشمول 3 کروڑ 88 لاکھ کا جرمانہ) ہے۔ اس ضمن میں رپورٹ مکمل کر کے چیف کمشنر آر ٹی او گوجرانوالہ کو بھجوادی گئی ہے تاکہ ایڈجوڈیکشن مکمل کر کے ریکوری کی جاسکے۔ ڈائریکٹر جنرل خواجہ تنویر احمد اس سیکٹر میں ہونے والی ٹیکس چوری کو ختم کرنے میں پر عزم دکھائی دیتے ہیں۔