• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم قانونی طور پر لامحدود اختیارات کی حامل ہوگی، طیب ایڈووکیٹ

اسلام آباد (حنیف خالد) پاناما کیس کے حوالے سے قائم کی جانے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم قانونی طور پر لامحدود اختیارات کی حامل ہوگی۔ جے آئی ٹی صرف فوجداری نوعیت کے سنگین جرائم کی تفتیش کیلئے بنائی جاتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار فوجداری قوانین کے ماہر سابق صدر اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سید محمد طیب ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے جنگ کو خصوصی انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ عمومی طور پر فوجداری جرائم کی تفتیش پولیس کرتی ہے اگر جرم میں کوئی سرکاری ملازم ملوث ہو تو پھر ایف آئی اے تفتیش کرے گی اور مالی بدعنوانی کے بعض معاملات میں بمطابق (شیڈول) نیب کو کارروائی کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کو پہلی بار انسداد دہشت گردی کے قانون مجریہ 1997 میں متعارف کرایا گیا اور انسداد دہشت گردی کے تمام مقدمات کی تفتیش جے آئی ٹی کرتی ہے۔ سید محمد طیب ایڈووکیٹ نے کہا کہ جے آئی ٹی کو ایس ایچ او کے تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ مختلف اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے تاکہ موثر انداز میں تفتیش مکمل ہوسکے اور ہر ممبر اپنے ادارے کو حاصل اختیارات استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تفتیش‘‘ کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ (L) 4میں بیان کیا گیا ہے جس سے مراد ’’شہادت کو اکٹھا کرنا‘‘ ہے۔ تفتیش کے حوالے سے جے آئی ٹی کے اختیارات کی کوئی حد نہیں ہے۔ جے آئی ٹی فریقین کو بھی شہادت یا مواد فراہم کرنے کا کہہ سکتی ہے اور خود بھی مجاز ہے کہ کسی بھی فرد یا ادارے سے براہ راست رابطہ کرکے مطلوبہ شہادت یا مواد طلب کرے۔ جے آئی ٹی دوران تفتیش کسی بھی شخص یا ادارے کو (جو کہ فریق مقدمہ نہ ہو) بھی ’’حکمنامہ طلبی‘‘ بھیج کرکے طلب کرسکتی ہے اور گواہان کے بیانات قلمبند کرسکتی ہے۔ فوجداری قانون کے مطابق پولیس یا تفتیشی ادارے کا فرض ہے کہ وہ شہادت اکٹھی کرے۔ مدعی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ شہادتیں لائے۔ مدعی یا متاثرہ فریق محض نشاندہی کرتا ہے کہ فلاں شہادت فلاں جگہ یا فلاں شکل میں موجود ہے۔ اس کو حاصل کرکے پرکھنا اور ریکارڈ کا حصہ بنانا تفتیشی ادارے کا کام ہے۔ سید محمد طیب ایڈووکیٹ نے کہا کہ تفتیشی ادارہ حکومت کی مدد سے بیرون ملک جاکر بھی تفتیش کرسکتا ہے تاہم اس کیلئے ہر دو ریاستوں کے درمیان باہمی اجازت اور اتفاق ضروری ہے۔ جے آئی ٹی انکوائری کمیشن کی نسبت زیادہ موثر اور بااختیار ہوتی ہے۔ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے گواہان کے بیانات پر فریقین مقدمہ جرح نہیں کرسکتے۔ تفتیشی ادارہ کسی کو گناہ گار یا بیگناہ قرار نہیں دے سکتا بلکہ وہ صرف اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرواتا ہے جس میں حاصل کی گئی شہادت کی نوعیت و تفصیل، قبضہ میں لی گئی دستاویزات اور گواہان کے بیانات شامل ہوتے ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں عدالت اپنی قانونی کارروائی کرتی ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا درجہ ’’ چالان‘‘ کے برابر ہے تاہم پولیس کی رائے اور رپورٹ کو عدالت ماننے کی پابند نہیں۔ فوجداری قانون کے مطابق عدالت مزید تفتیش کرنے کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ سید محمد طیب ایڈووکیٹ نے کہا کہ اگر تفتیش کا عمل دیئے گئے یا قانون میں لکھے گئے وقت میں مکمل نہ ہوسکے تو وقت میں توسیع کی درخواست تفتیشی ادارہ دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس کی جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت میں جمع ہونے کے بعد عدالت سرسری سماعت کرکے فیصلہ سنا سکتی ہے۔
تازہ ترین