کراچی ( تجزیہ :مظہر عباس) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ان دنوں کراچی کے غیر معمولی دورے پر ہیں۔ اس سے پہلے بہت کم ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے کراچی میں ایک دن سے زیادہ قیام کیا ہو۔ ان کا حالیہ 2روزہ دورہ محض انتظامی نوعیت کا نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کیلئے ہے اورہ وہ اس دورے میں سندھ کے شہری اور دیہاتی علاقوں میں پی پی پی کے خلاف گرینڈ الائنس کے حوالے سے ممکنات کو تلاش کرنے کی کوششوں میں میں لگے ہوئے ہیں۔ سندھ اور وفاق کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں وزیرداخلہ نے وزیراعلیٰ سندھ سے بھی ملاقات سے اجتناب برتا ہے اور یہ بھی سیاسی وجوہات کی وجہ سے ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دورےسے قبل ملاقات میں وزیراعظم نواز شریف نے مراد علی شاہ سے ملاقات کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ وزیر داخلہ پر ہی چھوڑا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر داخلہ اپنے دورے کے ابتداء میں آئی جی پولیس کا زیر التوأ معاملہ اور رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کا معاملہ نمٹانا چاہتے تھے لیکن وزیر اعلیٰ سندھ کے ’’گو نواز گو‘‘ نعرے اور انکی کمپئن کی قیادت کرنےکے بعد چودھری نثار نے اپناذہن تبدیل کر لیا تاہم انہوں نے کراچی آپریشن میں مشکلات کے حوالے سے سول آرمڈ فورسز کے حکام کے ساتھ ملاقات کی۔ مرکز اور سندھ حکومت کے درمیان کشیدہ تعلقات بہت سے ایشوز پر ہیں جن میں آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ کی تعیناتی، سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی رفقاء کی گمشدگی کا معاملہ بھی شامل ہے ،جن کے بارے میں تاحال کچھ پتہ نہیں ہے، تاہم ان کے حوالے سے کچھ اشارے ضرور ملے ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک آئندہ ہفتے گھر واپس لوٹ آئے۔ ان گمشدگیوں کے حوالے سے سندھ حکومت اور پی پی پی قیادت ، وفاقی حکومت اور وزیر داخلہ کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ دوسری طرف مرکز سندھ پر کراچی آپریشن کو نقصان پہنچانے کا الزام لگاتا ہے اور اس کا خیال ہے رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے حوالے سے تاخیر کی وجہ سے یہ آپریشن رکا ہوا ہے اور ساتھ آئی جی پولیس کو غیر فعال کر دیا گیا ہے اور مرکز کے مطابق سندھ حکومت کے ان اقدامات سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مورال کم ہوا ہے۔ وزیر داخلہ نے ویز راعظم کو کراچی میں اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ آرمی چیف، انٹیلی جنس چیفس اور سندھ گورنمنٹ مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کر سکیں ۔ چودھری نثار نے وزیراعلیٰ سندھ کے علاوہ کراچی آپریشن کے تمام ذمہ داران کے ساتھ ایک دن گزارا ہے ان کے دورہ کراچی کا مقصد بڑھتے ہوئے سیاسی ماحول سے جوڑا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو کراچی سمیت سندھ میں جیت کے حوالے سے مشکل ٹاسک کا سامنا ہے اور گزشتہ 4سالوں میں پارٹی کے اند ر گڑ بڑ میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے اور اس کے پرانے اتحادی فنکشنل مسلم لیگ سمیت جتوئی، شیرازی اور دیگر گروپس کافی حد تک کمزور ہوئے ہیں۔ چودھری نثار سندھی قوم پرستوں کے ساتھ ہاتھ ملانے اور ممتاز علی بھٹو کے ساتھ تعلقات پھر سے زندہ کرنے کے لئے بھی ممکنات کی تلاش میں ہیں۔ مسلم لیگ کی قیادت آنے والے ہفتوں یا مہینوں میں ایاز پلیجو سے بھی ملاقات کر سکتی ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل اندرون سندھ میں مسلم لیگ کی مضبوط اتحادی رہی ہے لیکن سنیئر رہنما پیر صاحب پگارو کی وفات کے بعد نئے پیر پگارو مقبول لیڈر کے طور پر متحرک نہیں ہوئے ہیں وہ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ پی پی پی مخالف قوتوں کا اتحاد تشکیل دے سکیں۔ (ن) لیگ سندھ میں تیزی سے اپنے دوست کھو رہی ہے۔ سید غوث علی شاہ، حلیم عادل شیخ، لیاقت جتوئی، اسماعیل رائو اور دیگر کئی لیگی راہنما پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔ (ن) لیگ کی قریبی اتحادی فنکشنل لیگ کو امتیاز شیخ، جام مدد علی و دیگر کے جانے کے بعد اپنی پوزیشن بہتر کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ پہلی بار سانگھڑ کے ضمنی الیکشن میں اپنی گرفت کھو چکی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کے اثر کھونے کے بعد سول اور فوجی قیادت ایم کیو ایم لندن کو سیاسی جگہ نہ دینے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اس حوالے سے کراچی میں اور حیدر آباد میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم (پاکستان ) اور پاک سرزمین پارٹی کے مابین جبکہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان اتحاد خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم پی پی پی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی۔اپنے دورہ کراچی کے تناظر میں چودھری نثار وزیراعظم نواز شریف سے سندھ میں اتحاد کے حوالے سے ممکنات پر تبادلہ خیال کرینگے اور وزیراعظم اپنے آئندہ دورہ سندھ میں پرانے اتحادیوں اور ایف ایم ایل سے ملاقات کرینگے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی جانب سے وزیرداخلہ سندھ تنقید کی زد میں ان کا دورہ انتہائی اہم تصور کیا جارہا ہے کیونکہ آصف علی زرداری اور پی پی پی کی دوسری قیادت سمجھتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی وزیرداخلہ کی ایما پر کی جارہی ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ چودھری نثار کو اس پر خود یقین ہے کہ کہ انہوں نے ڈاکٹر عاصم حسین کی ایجنسیوں کے ہاتھوں گرفتاری میں DEVIL,S ADVOCTEکا کردار ادا کیا تھا اور اس گرفتاری کے بعد وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے گرفتار ی کی وجوہات کے حوالے سے بیان جاری کیا تھا۔ باوثوق ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ وزیرداخلہ اہم ایجنسیوں سے گمشدگی کا معاملہ اٹھایا ہے اور مختلف ایشوز پرہونیوالی مس ہینڈلنگ پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ اس سے پہلے سندھ بلڈنگ اتھارٹی پر رینجرز اور ایف آئی اے کے چھاپے کے دوران 16ہزار فائلیں قبضہ میں لے لی گئی تھیں جو بعدمیں نیب کے حوالے کردی گئیں اور ان فائلوں کے حوالے سے وہ پراسراریت اور کوئی کارروائی نہ کرنے پر بھی وزیرداخلہ نالاں ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ سابق زرداری کے ساتھیوں کی گمشدگی کے تناظر میں کچھ کلیو بھی ملے ہیں یہ کہ وہ پریمیئرایجنسیوں کی تحویل میں ہیں اور ان سے سابق صدر زرداری کی مالی ٹرانزکشن کے حوالے سےتفتیش کی جا رہی ہے۔ اگرانتہائی اعلیٰ پیمانے پر ایم کیو ایم لندن کو آئندہ الیکشن میں کردار ادا کرنے سے باز رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تواب مسلم لیگ ن کو یہ دیکھنا ہے کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان کا پاک سرزمین پارٹی کون سا دھڑا اس کیلئے مؤثر ثابت ہو سکتاہے۔ پارٹی میں رہنمائوں کی اکثریت ایم کیو ایم پاکستان سے اتحاد کے حوالے سے بہترین آ پشن سمجھتے ہیں جب کہ کچھ چاہتے ہیں اتحاد کے حوالے سے پاک سرزمین پہلے اپنی طاقت شو کرائے۔سب کچھ اسلام آباد میں پاناما کیس کے فائنل نتائج پرمنحصر ہے لیکن مسلم لیگ ن پی پی پی اور ایم کیو ایم کے مضبوط حلقوں میں کریک ڈالنے کیلئے سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔