اتنے سانحات ہمارا مقدر نہیں تھے جتنے ہم نے برداشت کیے۔ دہشت گردی ہمارا مقدر نہیں تھی یہ ہماری بے بصیرتی کا ثمر اور وقتی مصلحتوں کا تحفہ ہے۔ یہ مسئلہ آسان نہیں خاصا الجھا ہوا ہے اور محض ایک آدھ حکمران کو پنیری لگانے کا الزام دے کر ہم دوسرے حکمرانوں کو معصوم قرار نہیں دے سکتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب دشمن سر پہ کھڑا گولیاں چلا رہا ہو اور بے دریغ خون بہا رہا ہو تو وہ وقت اس کی وجود تلاش کرنے کا نہیں ہوتا بلکہ ان قیمتی لمحات میں چیلنج سے نبٹنے کے لئے وقتی اور طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر حکمت عملی ناقص ہو، چاہے اس کا سبب کچھ بھی ہو، تو پھرسانحات بار بار حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ یاد رکھیئے عالمی تاریخ یہ راز سمجھاتی ہے کہ جرائم پیشہ یا دہشت پھیلانے والے عناصر کو کبھی بھی جڑ سے اکھاڑا نہیں جا سکتا۔ ضرورت ہوتی ہے ان کی سرکوبی کی، ان کو دبانے کی اور انہیں اس قدر کمزور کر دینے کی کہ وہ پھر سر اٹھانے کے قابل نہ رہیں اور اپنی مخفی خطرناک صلاحیتوں سے محروم ہو جائیں۔ ہمارا قومی ایکشن پلان اسی حکمت عملی کا نمونہ ہے لیکن حکمرانوں کی نالائقی جوانتظامیہ کی نااہلی کے سبب اس کے 20 نکات میں سے صرف چھ پر عمل درآمد ہوسکا، باقی عضو معطل کی مانند ہیں اور جب قومی ایکشن پلان کے معتدبہ حصے عضو معطل ہوں تو پھر دہشت گردوں کی آمد کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ ان سے کیسے نبٹا جاسکتا ہے؟ اجازت دیجئے کہ میں سارے منظر نامے پر اپنے تناظر میں یہ کہہ سکوں کہ ہم کاغذی شیر ہیں یعنی پیپر ٹائیگر ہیں۔ ہم کاغذوں پر شاندار منصوبے بناتے ہیں اور پھر ہمارے حکمران ان پر عمل پیرا ہونے کے ضمن میں تساہل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری حکومتی مشینری میں سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت موجود نہیں۔ صلاحیت ہے لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ سیاسی ادارے یعنی ’’پولیٹیکل ول‘‘ کے بغیر عمل کی گاڑی نہیں چلتی اور سیاسی ادارے یکسوئی چاہتے ہیں۔ میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ ہمارے حکمران منصوبوں پر (Presentations) لے کر، ان پر ماہرین کی رائے لے کر منظوری دے دیتے ہیں اور پھر تساہل کا شکار ہو جاتے ہیں یا ان کی ترجیحات اور مصروفیات بدل جاتی ہیں یا ان میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ ہمہ وقت سارے منصوبوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرسکیں۔ میں نے یہی دیکھا ہے کہ ایکشن پلان منظور کر کے حکمران مطمئن ہو جاتے ہیں اور پھر دلچسپی کی کمزوری کے سبب تساہل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ قومی ایکشن پلان ہمہ وقت نگرانی اوراحتساب کا تقاضا کرتا ہے اور اس کی تمام شقوں پر مکمل عمل حکمرانوں کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ کہ منصوبے کے دو تہائی نکات پر عمل نہ ندارد.... وزیراعظم صرف قوم کا ہی بلکہ عمل درآمد کروانے والی مشینری کا لیڈر اور انجن ہوتا ہے لیکن جب وزیراعظم اپنے آپ کو جز وقتی وزیراعظم بنالے، جزوقتی وزیر خارجہ ہو، وہ ہر ماہ دو دو ہفتے ملک سے باہر رہے، اپنے کئی فرائض اور کاموں کو آرمی چیف اور دوسرے ساتھیوں پر چھوڑدے، اس کی داخلی صورت حال اور دہشت گردی میں دلچسپی کا یہ عالم ہو کہ چارسدہ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں اور وہ ڈیووس میں ملاقاتوں میں مصروف ہو اور پھر وہاں سے اپنے پسندیدہ شہر لندن تشریف لے جائے تو ان حالات میں ترجیحات معلوم اور نتائج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ڈیووس خوبصورت مقام ہے اور یہ کانفرنس غیرملکی سرمایہ کاری کا ذریعہ ہے لیکن جب ملک دہشت گردی کا شکار ہو اور امریکی صدر پاکستان پر غیر مستحکم کا لیبل لگا کر امریکی سرمایہ کاروں کو یہاں آنے سے روک رہا ہو تو پھر سرمایہ کار کہاں سے آئیں گے اور ان کانفرنسوں میں ملاقاتیں کیسے ثمر آور ہوں گی۔ ملک کا وزیراعظم ڈیووس میں پاکستان کو سرمایہ کاری کے لئے بہترین ملک قرار دے رہا تھا تو عالمی میڈیا پر چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی میں گولیاں چلنے اور نوجوانوں کی بکھری اور خون میں نہائی لاشوں کے مناظر دکھائے جارہے تھے۔ کیا ایسے میں تقریریں سننے والے طنزیہ مسکراہٹوں کا تبادلہ نہیں کریں گے۔ نکلے تھے ہم گھر سے سعودی عرب اور ایران کی ثالثی کے لئے۔ حسب معلوم سعودی عرب نے ہمیں گرمجوشی اور احترام دیا۔ تہران میں استقبال نیم دلی کی عکاسی کرتا تھا۔ ابھی اندرون ملک ثالثی کے ڈھول پیٹے جارہے تھے کہ برادر ملک کےوزیر خارجہ نے یہ کہہ کر ہمارے جذبات پہ اوس ڈال دی ہے کہ پاکستان ثالثی نہیں کررہا۔ تو پھر ہم کیا کررہے ہیں؟ اب وضاحتوں کا سلسلہ چلےگا دیکھتے جائو اور سنتے جائو۔ معاف کیجئے بات دورنکل گئی۔ قلم سرپٹ دوڑتا ان وادیوں میں داخل ہوگیا جو بظاہر ممنوعہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے لیڈران یکسوئی ، بصیرت اور عمل درآمد کے حوالے سے کمزور ہیں۔ یہاں ہر منصوبے کا وہی حشر ہوتا ہے جو قومی ایکشن کا ہورہا ہے فرق صرف یہ ہے کہ دوسرے منصوبے کاغذوں کے ڈھیر تلے دب جاتے ہیں، کوئی یاد دلانے والانہیں ہوتا لیکن قومی ایکشن پلان ہم بھول نہیں سکتے کیونکہ دہشت گرد ہمیں یاد دلاتے رہتے ہیں ۔ چارسدہ میں معصوم نوجوانوں کا خون بہنے کے بعد وزیراعظم صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ قومی ایکشن پلان پر پوری طرح عمل نہیں ہوا؟ کاش انہیں پہلے احساس ہوتا اور وہ یکسوئی اور لگاتار نگرانی سے اس پر عمل کرواتے۔ بلاشبہ ضرب عضب نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم نے دہشت گردی کا قلعہ فتح کر لیا ہے۔ دہشت گرد اپنی پناہ گاہوں میں موجود ہیں، انہیں افغانستان کے ان علاقوں میں پناہ گاہیں میسر ہیں جہاں افغان حکومت کی رٹ نہیں چلتی۔ وہاں انہیں فنڈز بھی مل رہے ہیں، اسلحہ بھی، تربیت بھی اور احساس تحفظ بھی اسلئے اس مسئلے سے نبٹنا اور اس چیلنج سے عہدہ برآ ہونا اتنا آسان نہیں جتنا ہم سمجھ بیٹھے ہیں۔ ضرب عضب کی آغاز کی کامیابیوں نے ایک احساس کامیابی پیدا کیا جس نے تساہل کو جنم دیا۔ موٹی سی بات ہے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کا 22 سو میل کلومیٹر سے زیادہ لمبا بارڈر جب تک سیل نہیں ہوتا دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت کی کڑی نگرانی نہیں کی جاتی، تینوں ممالک (ہندوستان، افغانستان، پاکستان) مل کر سختی اور خلوص نیت سے غیر ریاستی عناصر کا قلع قمع نہیں کرتے۔ اس خطے میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ اس مسئلے کی زیادہ قیمت افغانستان اور پاکستان ادا کریں گے لیکن ہندوستان بھی اس وقت تک محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک تینوں ممالک مل کر غیر ریاستی عناصر کی کمر نہ توڑیں۔ ہندوستان اور پاکستان تو شاید کافی حد تک اس چیلنج سے نبٹنے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان جس کا چار علاقوں پر کنٹرول ہی نہیں غیر ریاستی عناصر پر قابو پاسکے گا بظاہر ایسا ممکن نہیں جب تک افغان اور امریکن فورسز مل کر جنگی حکمت کے تحت اقدام نہ کریں، ایئر فورس کا بے رحمانہ استعمال نہ کریں اور ڈرون ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھائیں۔ یہ بہرحال کٹھن کام ہے نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ اس صورت حال کے بیش نظر پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارا کار نہیں کہ وہ افغانستان کے ساتھ بارڈر کو سیل کرے، دراندازی کے مواقع ختم کیے بغیر ضرب عضب منطقی انجام تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ ضرب عضب کے مقدس نام ’’عضب‘‘ کے تقدس کا تقاضا ہے کہ یہ ضرب ہر صورت کامیابی سے ہمکنار ہو اور حکمران غیر ملکی دوروں کی بجائے اپنے گھر پر پوری طرح توجہ دیں۔ سانحہ چار سدہ اور پٹھانکوٹ کے حوالے سے تینوں ممالک کے حکمرانوں نے صبر و تحمل سے کام لیا ہے، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ نہیں کی سوائے میڈیا کے جو بہرحال آزاد ہے۔ اس سے ایک خوش فہمی نے جنم لیا ہے کہ تینوں ممالک کے حکمران مل بیٹھ کر مشترکہ حکمت عملی بناسکتے ہیں اور اگر خلوص نیت سے کوشش کریں تو دہشت گردی پر قابو پا سکتے ہیں۔ اب تک یہ بات پوری طرح سمجھ میں آجانی چاہئے کہ نیک نیتی سے مشترکہ حکمت عملی پر عمل کیے بغیر اس خطے میں نہ امن آئے گا نہ استحکام۔