• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مختلف رنگ اور نسل کے حملہ آوروں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں ہندوستان پر حکومت کی ہے۔ ان میں سے کسی بھی حملہ آور یا حاکم کی زبان اردو نہیں تھی۔ ہندوستان پر حکومت کرنے والے آخری حکمراں انگریز کو ہم لاکھ برا بھلا کہیں مگر انگریز نے ہندوستان کی کایا پلٹ کر رکھ دی تھی۔ صدیوں سے ہندوستان پر راج کرنے والے ہندو اور مسلمان حکمرانوں نے اپنے دور میں باغ باغیچے بنوائے تھے، قلعے بنوائے تھے۔ مقبرے بنوائے تھے، ہیرے اور جواہرات سے محل سجائے تھے، ہندوستان کے چپے چپے پر مندر اور مسجدیں بنوائی تھیں۔ اس کے برعکس انگریز نے اپنے دو سو سالہ دور حکومت میں ہندوستان کو اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں دیں۔ زراعت کو ترقی دینے کے لئے ملک بھر میں بیراج بنوائے، روڈ، راستے اور پل بنوائے۔ پورے ہندوستان میں ریل گاڑیوں کا جال بچھا دیا۔ ملک کو پانی پر چلنے والے جہاز اور ہوائی جہاز دیئے، ڈاک کا نظام دیا، بجلی دی، انتظامی امور چلانے کا طریق کار دیا، قانون کی حکمرانی کے لئے کرمنل پروسیجر کوڈ اور پینل کوڈ بنا کر دیا۔ کرمنل پروسیجر کوڈ اور پینل کوڈ معمولی تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں مروج ہے۔ قتل کا ملزم ہندوستان اور پاکستان میں دفعہ 302کے تحت پکڑا جاتا ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ انگریز نے اپنی زبان انگریزی ہندوستانیوں پر مسلط نہیں کی۔ تمام ہندوستان میں بنیادی کام مقامی زبانوں مدراسی ،گجراتی ،بنگالی، گرمکھی، مراٹھی ،سندھی وغیرہ میں چلتا تھا، انہی زبانوں میں بچوں کو بنیادی تعلیم دی جاتی تھی۔ انگریزی محض مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی تھی۔ ان حقائق کو دیکھتے ہوئے اردو کا ہندوستان کے طول وعرض تک پھیل جانا معجزے سے کم نہیں ہے۔
آپ جب تک کسی واقعہ، کسی ماجرے، کسی حقیقت سے حیران نہیں ہوتے اور واقعہ ماجرا اور حقیقت کو رواجی پیرائے میں لیتے اور سمجھتے ہیں، تب تک آگاہی اور ادراک کے دروازے نہیں کھلتے،تب تک آپ تمام تر کریڈٹ اداروں، انجمنوں اور اشخاص کو دے دیتے ہیں اور خود کو سوچنے سمجھنے کے جنجال سے مستثنیٰ قراردیتے ہیں۔ فلاں اداروں اور فلاں انجمنوں اور فلاں اشخاص کی ان تھک محنتوں کی وجہ سے اردو پورے ہندوستان پر چھا گئی تھی۔ فقیر کی یہ بات آپ غور سے سنیں، آزاد قبائل اور خیبر پختونخوا سے بے شمار پٹھان روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں۔ کوئی اردو انجمن اور ادارہ فروغ اور ان کی آئو بھگت نہیں کرتا۔ ایک مہینے سے تین مہینوں کے اندر وہ لوگ اردو بولنا اور سمجھنا سیکھ جاتے ہیں۔بظاہر یہ بات معمولی اور رواجی لگتی ہے مگر اصل میں یہ بات آپ کو سوچنے کی دعوت دیتی ہے، آپ کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ مگر آپ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ آپ حیران کن حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پٹھان ،پنجاب بھی جاتے ہیں ،مگر وہ پنجابی بول نہیں سکتے۔ سمجھ نہیں سکتے، وہ بلوچی اور سندھی بول نہیں سکتے۔ سمجھ نہیں سکتے ! یہاں میں ایک استثنیٰ Exception کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ سندھ کے بلوچ حکمراں ایک طویل عرصے سے افغانستان کو ہر ماہ تاوان ادا کرتے تھے۔ کبھی کبھار تاوان ادا کرنے میں ان سے بھول چوک ہو جاتی تھی۔ پاداش میں افغان حکومت نے شکار پور کے قریب گڑھی یاسین میں پٹھانوں کو آباد کیا تاکہ سندھ کےحاکموں کی گوشمالی کرتے رہیں اور ان کو یاد دلواتے رہیں کہ تاوان دینے میں دیر کرنے کےنتیجے میں پٹھان پورے سندھ پر قبضہ کر لیں گے۔یہ دو سو برس پرانی بات ہے۔ گڑھی یاسین میں آباد پٹھانوں نے سندھی کو اس طرح اپنایا کہ آپ پتہ نہیں لگا سکتے کہ گڑھی یاسین میں آباد پٹھانوں کی مادری زبان پشتو ہے یا سندھی ہے ! گڑھی یاسین میں آباد پٹھان اپنے آپ کو آغا کہلواتے،آغا صوفی پہلے اسکالر تھے جنہوں نے سچل سرمست کا کلام جمع کیا، کلام کو ترتیب دیا۔ کلام کی تشریح لکھی۔ آغا سلیم سندھی کے بہترین افسانہ نگار، ناولسٹ ،شاعر اور محقق ہو کر ابھرے ،انہوں نے شاہ لطیف کا منتخب کلام اردو اور انگریزی میں ترجمہ کیا۔ آغا تاج محمد تعلیمی ماہر تھے۔ آغا محمد یعقوب نے اٹھارہ برس لگاتار محنت کے بعد شاہ لطیف کا مکمل کلام انگریزی میں ترجمہ کیا اور تین جلدوں میں شائع ہوا۔ موجودہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج د رانی گڑھی یاسین کے سندھی پٹھان ہیں، اردو کے حوالے سے مجھے جس بات نے زیادہ حیران کیا ہے، وہ ہے اردو کا روح میں اترجانا، روح میں اترجانے سے میری مراد ہے کہ اردو خود بخود اپنے آپ،آپ کو آنے لگتی ہے۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ اردو آپ کو آتی ہے۔ آپ اردو جانتے ہیں۔ میں سب لوگوں کی ترجمانی کا دعویٰ نہیں کرتا۔ یہ میں محسوس کرتا ہوں، یہ میرا اپنا احساس ہے۔ میںنے اردو کسی سے نہیں سیکھی۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اردو مجھے بچپن سے آتی تھی۔ آپ جس زبان میں سوچتے ہیں، وہ زبان آپ کو اپنی اپنی زبان لگتی ہے۔ اردو سب کو اپنی اپنی زبان لگتی ہے۔
اب میں آپ کو سوچنے کی دعوت دیتا ہوں، آپ فقیر کی بات غور سے سنئے۔ توجہ دیجئے۔ اردو، ادیبوں اور شاعروں میں بڑی تعداد ان لکھنے والوں کی ہے جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ بہت دور نہیں جاتے ۔ غالب سے بات شروع کرتے ہیں۔ غالب کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ علامہ اقبال کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ فیض احمد فیض کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے والے حفیظ جالندھری کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔احمد ندیم قاسمی کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ احمد فراز کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ منیر نیازی کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابن انشا کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ کس کس کے نام گنوائوں ؟ کرشن چندر، منٹو، راجندر سنگھ بیدی کی مادری زبان اردو نہیں تھی موجودہ دور میں عطا الحق قاسمی ،اصغر ندیم سید، مظہر الاسلام، اور امجد اسلام امجد کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ آپ جس زبان میں سوچتے ہیں اسی میں لکھتے ہیں۔ ہم سوچتے اس زبان میں ہیں جو زبان ہماری روح میں پنہا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اردو کے لئے دو الفاظ استعمال کئے ہیں،کرشمہ اور معجزہ۔

.
تازہ ترین