دو ماہ پہلے ملک کے سینئر کالم نگاروں کی ایوان صدر میں آصف علی زرداری سے ملاقات ہو رہی تھی، ملاقات سے قبل وزیر اطلاعات قمر زماں کائرہ، فرحت اللہ بابر، ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو اور فوزیہ وہاب رسم و رہ دنیا نبھانے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کررہے تھے۔ کائرہ صاحب پیپلز پارٹی کے چوتھے اقتدار کے چوتھے خوش گفتار وزیراطلاعات ہیں۔ پہلے خوش گفتار وزیر باتدبیر بہر حال مولانا کوثر نیازی تھے۔
صدر مملکت ملاقات کے کمرے میں آنے کے بعد ہر ایک کالم نگار سے فرداً فرداً ملے اور تقریباً ہر ایک کو اپناذاتی دوست ہونے کا بھر پور احساس دلایا۔ اس ہیچمدان سے ان کے ذاتی تعلق کی ایک ہی علامت ہے کہ ہماری ان سے روبرو ملاقات ہو یا ہم ٹیلی فون پر گفتگو کریں۔ ہماری بات چیت کا میڈیم سرائیکی زبان ہوتا ہے۔ صدر زرداری نے اس ملاقات کے آغاز میں ہی ہمارے سینئر بزرگوں ارشاد احمد حقانی، عباس اطہر اور نذیر ناجی کو پورے پروٹوکول کے ساتھ بزرگ ہونے کا احساس دلایا۔ عرفان صدیقی کو مومن کے نصف مصرعے کی ماردی ”کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا“ ہارون الرشید کو دلآویز مسکراہٹ نذر کی اور موصوف نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے دلآویزکی جگہ دلدوز بلکہ بڑی حد تک دل شکن مسکراہٹ سے جواب دیا۔ برادرم عطاء الحق قاسمی کے قریب آئے تو آنکھوں ہی آنکھوں میں ان کا دست شفقت اپنے سر پر رکھنے کا سوال کردیا مگر قاسمی صاحب نے اپنے ہاتھ اور ان کے سر کی خیریت مطلوب ہونے کی بنا پر صدر مملکت کے سوال کو کسی پریس کانفرنس میں پوچھے گئے سوال کی طرح نظر انداز کردیا۔ ظفر عباس سے یوں ملے، گویا آملے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک۔ عبدالمالک سے ملے تو دونوں کی آنکھوں میں دوستی کی چمک تھی اور ایسا لگا کہ دوستی کی اسی چمک دمک میں عبدالمالک یوں کہہ رہے ہوں کہ اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے۔
انصار عباسی اور رؤف کلاسرا سے ملتے ہوئے صدر مملکت نے زبان حال میں عرفان صدیقی کی نذر کئے گئے مومن کے نصف مصرعے اولیٰ کے بعد سنبھال کر رکھا گیا باقی نصف ”تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو“ نذر کیا اور اپنی مسند سنبھال لی۔
صدر مملکت کی گفتگو کے آغاز پر ہی خوش گفتار قمر زمان کائرہ نے اس بات چیت کے آف دی ریکارڈ ہونے کامژدہ سنایا۔ ملاقات کے کمرے میں ہونے والی گفتگو میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ جسے آف دی ریکارڈ رکھا جاتا اس کے باوجود تمام کالم نگاروں نے صدر مملکت سے ہونے والی گفتگو کو آف دی ریکارڈ ہی رکھا۔ اس ملاقات کا پہلا نصف تمام ہوا تو دوسرا نصف کھانے کی میز پر شروع ہوا۔ ملاقات کے اس دوسرے حصے کو آف دی ریکارڈ نہیں کہا گیا تھا۔ اس لئے اس بات چیت کی بہت سی باتیں پہلے ہی منظر عام پر آچکی ہیں۔ برادر عزیز رؤف کلاسرا نے شکوہ کیا کہ پیپلز پارٹی سرائیکی بیلٹ کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ سرائیکی عوام پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر اقتدار میں لاتے ہیں۔ اس کے جواب میں پیپلز پارٹی سرائیکی بیلٹ کو کوئی پیکج دیئے بغیر بڑے بڑے عہدے اور وزارتیں دے کر خوش کرتی ہے۔ اس پر صدر زرداری اچانک بول اٹھے تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ سرائیکی صوبہ بنا دیا جائے۔ اس پر میں نے کہا کہ غیر متوازن وفاق میں توازن پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سرائیکی صوبہ بنا دیا جائے۔ مگر اس سلسلے میں وہی طریقہ کار اختیار کیا جائے جو چیف جسٹس کی بحالی کے سلسلے میں اختیار کیا گیا۔
کہنے کو تو میں نے اور راؤف کلاسرا نے بات کردی مگر مجھے ایسا لگا کہ میں ایوان صدر میں صوبے کی خیرات مانگ رہا ہوں۔ ہماری سیاسی قیادت سیاسی عمل کی بجائے معجزوں کی منتظر رہتی ہے۔ چیف جسٹس کی بحالی تو وکلاء کی مسلسل دو سال کی تحریک کا ثمر تھی، سرائیکی صوبہ مانگنے والی قیادت نے کوئی تحریک چلائی؟ کوئی لانگ مارچ کیا؟ کوئی ریلی نکالی؟کوئی جلسہ کیا؟ کوئی جلوس نکالا؟ کوئی قرار داد منظور کی؟ کوئی استقامت دکھائی؟ کوئی پیش قدمی کی؟یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی تو مہرے والا میں عاشق بزدار کے میلے میں سرائیکی صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آج کل یہ دونوں مخدوم اسلام آباد گئے ہوئے ہیں کل جب یہ ملتان واپس آئیں گے تو پھر وہاں سے مہرے والا جائیں گے اور پھر سرائیکی صوبہ کا مطالبہ کریں گے۔ کیا جہانگیر ترین، محمد علی درانی، غلام مصطفی کھر، اطہر گورچانی، عبدالقیوم جتوئی، بشریٰ گردیزی، شیر افگن نیازی، نیاز احمد جکھڑ، مخدوم احمد محمود اور دوسرے سیاستدان سرائیکی صوبے کے مطالبہ میں سنجیدہ ہیں، اگر سنجیدہ ہیں تو سنجیدگی نظر بھی تو آئے، ورنہ نعرے بازی تو پچھلے 40 سال سے ہو رہی ہے۔