• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے وزیر اعظم نواز شریف صاحب جن کی سیاست جنرل ضیاء الحق مرحوم کی مرہون منت ہے ۔صوبائی وزیر خزانہ پنجاب سے لے کر متعدد بار وزیر اعظم بننے کا شرف انہیںحاصل رہا ہے اور ایک مرتبہ توطویل جلاوطنی بھی اُن کا مقدر بنی ۔مگر قسمت کے دھنی ثابت ہوچکے ہیں ۔شروع سیاست سے لے کر آج تک ان کے بھائی شہبازشریف کو کریڈٹ جاتا ہے کہ دونوں بھائی کسی نہ کسی طرح ڈولتی ہوئی سیاسی کشتی کو بار بار پار لگانے میں کامیا ب ہوجاتے ہیں ۔اُن کے بیشتر وزراء اُن کے مشیر کا بھی فریضہ انجام دیتے رہے ہیں ۔جن کی وجہ سے بھی اقتدار کی کرسی سدا ہلتی رہتی ہے مگر وہ اس کا بُرا نہیں مانتے اور نہ ہی اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔مدتوں ساتھ رہنے والوں میں گجرات کے چوہدری برادران اور شیخ رشید کو جنر ل پرویز مشرف نے اُن سے چھین کر 8نو سال مسلم لیگ کی کمی مسلم لیگ ق بناکر پوری کی،مگر جب پرویز مشرف صاحب کا ستارہ اوپر تلے گردش میں آیا تو چوہدری برادران اور شیخ رشید صاحب حسب ِسیاسی روایات الگ ہوکر اپنی سیاست کو بچاگئے ۔چوہدری برادران نے پی پی پی کے ساتھ معاملہ طے کرکے 5سال گزاردیئے، تو شیخ رشید نے پی ٹی آئی کا سہارا لیا اورآج تک وہ عمران خان کو سیاست سکھارہے ہیں ۔مگر نواز شریف صاحب اپنی مخصوص کچن کیبنٹ کے سہارے جو شروع سے ان کے ساتھ رہی ،جس کے مشوروں کی وجہ سے بار بار اقتدارسے نکالے گئے ۔آج بھی وہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مشورے دے کر میاں صاحب کو گرداب میں ڈال رہے ہیں ۔بس فرق یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف صاحب نے ان ساتھیوں میں اپنے 4پانچ درجن افراد اپنی فیملی کے بھی شامل کرلئے ہیں ۔جو عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی اپنی سیاست چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان تو خاموشی سے اسٹیبلشمنٹ پر دبے الفاظ میں وقتا فوقتا تنقید کرتے رہتے ہیں ۔مگر خواجہ آصف جن کا خاندان ہی فوج سے وابستہ رہاہے ،کھل کر قومی اسمبلی میں گھن گرج کے ساتھ عسکری اداروں پر کھل کر تنقید کررہے ہیں ۔ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا وہ میاں صاحب کے درپردہ مشوروں پر عمل کررہے ہیں یا پھر وہ میاں صاحب کو مشورہ دے رہے ہیں ۔یہی کچھ سعد رفیق اور سابق وزیراطلاعات پرویز رشید صاحبان کی باڈی لینگویج بتا تی ہے ۔خصوصا ً پرویز رشید کی وزارت جانے کا یہی سبب بنا تھا ۔دیکھتے ہیں رانا ثناء اللہ تو واپس آگئے میاں صاحب پرویز رشید کو کب واپس لاتے ہیں۔ابھی یہ کش مکش جاری تھی کہ سندھ کے نئے گورنر جناب زبیر صاحب نے بھی گورنری کا حق اداکرتے ہوئے آتے ہی ایک خوفناک شوشہ چھوڑا مگر وہ ہوا میںہی تہلیل ہوگیا ۔ نئی وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگ زیب وقفے وقفے سے اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان پر جملے بازی تک محدود رہیں کہ اچانک پانا مہ لیکس کے متاثرین کی حمایت میں کراچی سے سینیٹر بننے والے نہال ہاشمی صاحب سے نہ رہا گیا اور اچانک بیٹھے بیٹھے سینیٹرشپ کے آخری دنوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے نواز شریف صاحب کے حق میں کہنے کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی کے اراکین پر برس پڑے اور ایسے برسے کہ مسلم لیگ ن اور میاں نوازشریف ان کی زلزلہ انداز تقریر پر ان سے استعفیٰ طلب کربیٹھے ،جوش خطابت میں جب وہ ہوش کھو بیٹھے تو استعفی بھی دے دیا ،صبح ہوئی تو یاروں نے سمجھایا ہوگا یا بقول اعتزاز احسن کہ یہ بھی اس ڈرامہ کا حصہ تھا کہ پہلے استعفیٰ دو اور پھر چیئر مین سینیٹ کو مناکرکےواپس لے لو ،خدا کا کرنا وہ استعفیٰ واپس ہوا تو اُن کی جان میں جان آئی مگر اب عدالتوں کےچکر تو کاٹنا ہونگے ۔مگر وہ عرصہ تک اب میڈیا کی جان بنے رہینگے ۔4سال جو خاموشی میں گزرے تھے اب روز اخبارات کی زینت بنیںگے۔ کم از کم سیاسی طور پر تو ابھرے رہینگے اور بعد میں جس طرح مسلم لیگ ن کا وطیرہ ہے، مک مکا ہوجائیگا۔مشاہد اللہ کی طرح واپس لے لیا جائے گا مگر جس طرح پی پی پی کے آخری دنوں میںمیاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے الیکشن کمپین میں سابق صدر زرداری کی حکومت اور کرپشن پر جلسوں میں جو تابڑتوڑ حملے کئے تھے اور اُن کو عوامی عدالت کے کٹہرے میں لانے کا اعلان کیا تھا ۔خالص اُسی طرز پر زرداری کے صاحبزادے بلاول بھٹو للکاررہے ہیں ۔غالبا زرداری خاندان بشمول آصفہ اوربختاور دونوں بہنوں کو بھی زرداری صاحب نے اپنے بھائی بلاول بھٹو کے ساتھ نتھی کرکے پنجاب میں یلغار کی راہ دکھائی ہے تاکہ یہ نوجوان خون سوئے ہوئے جیالوں کو ایک مرتبہ پھر جگاکر بھٹو زرداری خاندان کو اقتدار کی مسند پر بٹھاکر اپنا بدلہ لے جو بظاہر تو مشکل نظر آتا ہے مگر نواز شریف کے مشیر پھر کوئی غلطی کرکے ان کی راہ ہموار کرسکتے ہیں ۔غالبًا انہی کے لئے شاعر نے خوب کہا تھا "ہوئے تم دوست جن کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو"اگر مسلم لیگ ن اپنی مدت پوری کرنے میں پہلی مرتبہ کامیاب ہوگئی تو پانا مہ لیکس سمیت 5سال میں کئے گئے وعدوں میں سے آج تک اس نےایک وعدہ بھی پورانہیں کیا اور نہ ہی پی پی پی کی کرپشن کا حساب کتاب ہوا نہ بجلی کا بحران ختم ہوا ،بقول پی پی پی کے جیالوں کے ہم نے آئی ایم ایف سے اتنے قرضے نہیں لئے تھے جس کی وجہ سے ہم پر کرپشن کے الزامات لگے جتنے مسلم لیگ ن نے قرضوں کے علاوہ کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑکر ہمیں بھی شرما دیا ہے اور ہمارا کام آسان کردیا ہے ۔عمران خان اور پی پی پی دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر اتحاد بناتے ہیںتو پھر مسلم لیگ ن الیکشن میں برُی طرح شکست دوچار ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین