• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الٹے پیالے کبھی نہیں بھرتے .....چوراہا … حسن نثار

کیا ہم مسلمان بالخصوص پاکستانی دنیا کے بدلتے ہوئے چہرے ، تیور، کردار، رفتار، سمت، ارادے، ہیئت، ساخت، موڈ، سائز، سوچ اور عزائم کا احساس اور ادراک کر پائے ہیں ؟؟؟
کیا ہم ماضی پر ست اور حال مست برپشم قلندر قسم کے لوگوں کو رتی برابر اندازہ بھی ہے کہ گزشتہ پندرہ بیس عشروں کے اندر اندر یہ دنیا کیا سے کیا ہو گئی ہے ؟کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے ؟ یہاں کیسی کیسی قیامت گزر چکی ہے ؟کیسا کیسا واقعہ رونما ہو چکا ہے اور کیسے کیسے ”معجزوں“ کی قطاریں لگی ہیں ؟ موٹی کھال، موٹے دماغ اور سیاہ دل سوچ بھی نہیں سکتے کہ سائنس دانوں کے بھیس میں کیسے کیسے سامری جادوگر یا صوفیا اس دنیا کو کیسے تبدیل کئے دے رہے ہیں …کبھی سوچا کہ انسان کی اوریجنل حد رفتار کیا تھی اور اب کیا ہوگئی ہے؟چند میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ کر چند گھنٹوں بعد ہانپنے کانپنے کے بعد گر جانے والا انسان آج ہزاروں ٹن بوجھ اٹھا کر ہزاروں میل فی گھنٹہ کی پرواز پر قادر ہے ؟معمولی سے فاصلے پر ایک دوسرے کی آواز نہ سن سکنے اور معمولی سماعت والا انسان آج لاکھوں میل دوری کے باوجود نہ صرف کمیونیکیٹ کر سکتا ہے بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتا ہے ۔ یہ سب قیامتیں ہیں جو گزر چکی اور گزر رہی ہیں اور ان سے کہیں بڑی قیامتیں اور معجزے پائپ لائن میں ہیں جو موٹی کھالوں، موٹے دماغوں اور سیاہ دلوں کو جھنجھوڑ نہیں پا رہے …دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا …ہم ڈھٹیوں کی طرح ان ”معجزوں“ کے عادی ہوتے جاتے ہیں …ان حیرت انگیز ایجادات کی حیرت انگیزی پر غور کرنا، حیران ہونا تو درکنار انہیں ”ٹیکن فار گرانٹڈ“ کے باعث یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ سب کچھ رب کی مرضی کے بغیر نہیں ہو رہا …یہ سب اسی کے عطا کردہ دماغ کے کرشمے ہیں اور اگر یہی سچ ہے جو کہ سورج کی طرح سامنے ہے تو کوئی سوچے کہ ہم پر عطا وسخا کے یہ دروازے بند کیوں ہیں؟
چند روز پہلے یہ سنسنی خیز خبر میری نظر سے گزری کہ دس سال سے بھی کم عرصہ میں سائنسدان ”انسانی دماغ“ پیدا، ایجاد، دریافت یا وضع کر لیں گے؟؟؟کتنے فیصد لوگ جانتے ہیں کہ اس انسانی کامیابی یا تازہ ترین معجزہ کا مطلب کیا ہے ؟اس کے نتائج کیا ہوں گے؟اور عقائد کی دنیا میں کیسا بھونچال بپا ہو گا؟برین سٹم (BRAIN STEM) ہی اصل کہانی ہے اور …”اب یہ کہانی عام ہوئی ہے سنتا جا شرماتا جا “ والی بات ہے لیکن ہم عجیب سوچ پروف قسم کے لوگ ہیں کہ بڑی سے بڑی ایجاد کا استعمال تو شروع کر دیتے ہیں، جی کھول کر اس سے استفادہ بھی کرتے ہیں لیکن ”کیوں؟ کیسے؟ کس طرح؟“ جیسے سوالوں کی طرف ہمارا دوزخی دھیان کبھی نہیں جاتا ۔ کیسی بدنصیبی ہے کہ لوگ سیل فون پر دم کراتے اور ٹھونکیں مرواتے ہیں کہ بچہ ٹھیک ہو جائے یا بچی کا جن اتر جائے …کاروں پر سوار ہو کر مکاروں کے پاس جاتے ہیں تاکہ تعویذ ملے اور کامیابی قدم چومے…یہ ہاتھوں میں معجزے پکڑ کر معجزوں کے منتظر ہیں اور یہاں یہ حال ہے کہ اکثر لائٹ جلاتے وقت ،ایئرکنڈیشنر اون کرتے وقت، فون ملاتے ہوئے، ٹی وی پر کسی دوردیش کی لائیو کوریج دیکھتے وقت ان سب کیلئے دلوں میں احترام محسوس کرتا ہوں جو ہم بیکاروں کو یہ کارآمد چیزیں دے گئے جو صرف ایک صدی پہلے تک ”معجزہ“سمجھے جاتے تھے ۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ شدید ترین گرمی میں لوہے کے ڈبے کا ڈھکن کھولیں اور اندر سے ٹھنڈا پانی بلکہ برف بھی برآمد ہو ۔ اسے زبان کفاد میں فریج کہتے ہیں جس کا ٹھنڈا پانی پیتے ہوئے کبھی تو شرم آنی چاہئے۔ جب اماں جی کی ایم آر آئی رپورٹ آتی ہے تو کبھی دل چاہا کہ اس کے موجد کا شکریہ ہی ادا کر دیں؟ابا جی کے کامیاب ہارٹ اپریشن یا کڈنی ٹرانسپلانٹ پر کبھی ان کا خیال بھی آیا جن کی وجہ سے یہ سب ممکن ہوا ؟ کبھی سوچا کہ ابھی کل تک ٹی بی لا علاج تھی ، اس کی لاعلاجی اور خوفناکی پر فلمیں بنتی تھیں، ناول اور افسانے لکھے جاتے اور پھر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ٹی بی جیسا موذی مرض ”نزلہ زکام “ بن کر رہ گیا جس کے بارے میں مذاقاً کہا جاتا ہے کہ نزلہ زکام کا علاج کراؤ تو ہفتہ بھر میں ٹھیک ہو جاتا ہے اور علاج نہ کراؤ تو سات دن میں صحیح ہو جاتا ہے … لیکن ہم اور ہمارے حکمران ان سب باتوں سے بے نیاز، بے خبر اور بے پرواہ کسی اور ہی دنیا میں مگن ہیں۔ حکمرانوں کو جون ، جولائی میں سوٹوں سے فرصت نہیں، عوام بغیر بجلی، پانی، روزگار اور تعلیم کے سڑکوں پر بولائے پھرتے ہیں ، پیشہ ور ملا لاؤڈ سپیکرز پر نان سٹاپ دھاڑ رہے ہیں، دانشوروں کو کشمیر آزاد کرانے، اسرائیل کو ملیامیٹ کرنے، امریکہ کو اخلاقیات سکھانے، یورپ کی بے راہ روی کے افسانے سنانے اور ان کی بن بیاہی ماؤں کی تعداد بتانے، مجہول خودساختہ مجاہدین کے ترانے گانے، بھارت کو تگنی کا ناچ نچانے وغیرہ سے ہی فرصت نہیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی مکمل بربادی کے تابوت میں آخری کیل ہو گی لیکن یہ کوئی ایشو نہیں ۔
ملکی ایکسپورٹ کا جنازہ نکل چکا صرف دفن ہونا باقی ہے لیکن یہ کوئی ایشو نہیں،
انرجی کرائسز نے فیکٹریوں سے لیکر ریڑھیاں تک بند کر دی ہیں لیکن شور مچانے، ٹائر جلانے اور ہاؤ ہو کے علاوہ یہ بھی کوئی ایشو نہیں کیونکہ اربوں روپے کی جو بجلی چوری ہو رہی ہے وہ ”یہودو ہنود“ نہیں۔ ہم خود کر رہے ہیں۔ چور مچائے شور کہ اصل مسئلہ بجلی نہیں بجلی کی چوری ہے لیکن جو اس اصل ایشو کو چھیڑے گا اسکی مقبولیت متاثر ہو گی جس میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ صرف حکومت کو برا بھلا کہا جائے ۔ مختصراً یہ کہ من حیث القوم منزل کی مخالف سمت میں سرپٹ بھاگ رہے ہیں اور اوپر سے ایسے زہریلے ”اقوال زریں“ کہ …”خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے “… یعنی پاکستانیوں بلکہ پوری امت مسلمہ (؟) کو ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر اپنے نصیب پر خوش رہنا چاہئے۔
سچ کہا کسی نے کہ …بدنصیب کھوپریوں کے پیالے ہمیشہ خالی رہتے ہیں کیونکہ الٹے پیالے کبھی نہیں بھرتے۔
تازہ ترین