• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی اپنےحقوق اور اپنی بقاکی جدوجہد خود ہی کررہی ہے گوکہ پاکستان سے امریکہ آنے والا ہر حکمراں، وزیر اور اپوزیشن لیڈر ان پاکستانیوں کو ’’قابل فخر‘‘ اہم اثاثہ اور پاکستان کے ’’اصل سفیر‘‘ کے خطابات کی زبانی طور پر بارش کرکے خوش کردیتا ہے لیکن عملی طور پر پاکستان پہنچتے ہی سب کچھ بھلادیا جاتا ہے۔ بلکہ اجنبیوںجیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ انہیں صرف ’’فارن ایکسچینج‘‘ فراہم کرنےکی اے ٹی ایم سمجھ کر حکومت اور کرائم مافیا دونوں ہی ’’اکھاڑنے‘‘ کے چکر میں رہتے ہیں اور یہ سلوک ایئرپورٹ سے اترنے سے لیکر واپسی کیلئے ائیرپورٹ آنے تک جاری رہتا ہے۔ مگر امریکہ کینیڈا برطانیہ اور دیگر ملکوں میں آباد یہ پاکستانی بھی عجیب مخلوق ہیں۔ ان کی اولادیں پیدائشی امریکن کینیڈین اور برٹش شہری ہیں اور خود بھی روزگار، جائیدادیں اور زندگی کے تمام معمولات و ضروریات انہی ملکوں میں پوری کرتے ہیں لیکن ابھی تک خود ان پاکستانیوں اور ان کی اولاد کے دل آج بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ امریکی کانگریس کے اراکین، امریکی انتظامیہ سے پاکستان کی حمایت اور پاک۔امریکہ تعلقات کی بہتری کیلئے مسلسل رضاکارانہ خدمت کیلئے سب کچھ چھو ڑکر وقت نکالنا امریکہ کے پاکستانیوںکا طرہ امتیاز ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے ایک بڑے عرصہ کے بعد منظم ہوکر بھارتی ٹیم کو مثالی شکست دیکر ورلڈچیمپئن شپ تاریخی انداز میں جیت لی تو رات بھر جاگ کر تراویح اور عبادت اور پھر سحری سے لیکر دوپہر تک ٹی وی پر میچ سے جکڑے ہوئے یہ پاکستانی ٹیم کی جیت کی خوشیاں منانے باہر نکل آئے۔ امریکہ اور برطانیہ میں وقت کا فرق اور امریکہ بھر میں ’’فادرز ڈے‘‘ کی چہل پہل کے ہجوم میں گھرے ہوئے ان پاکستانیوں نے تھکاوٹ کے باوجود نیویارک اور نیوجرسی کے علاقوں میں پاکستانی ٹیم کی کامیابی پر ’’وکٹری ریلی‘‘ نکال ڈالی۔ سینکڑوں خاندان پاکستانی جھنڈوںکے ساتھ نکل کر اپنے بچوںسمیت جمع ہوگئے۔ ڈاکٹرز، پروفیسرز، بزنس مین، ٹیکسی ڈرائیور یعنی ہر طبقہ کا پاکستانی یکساں جذبے کے ساتھ خوش ہوکر نعرے لگاتا اس پاکستانی کار ریلی میں شریک تھا۔نیو جرسی میں یہ ریلی سب سے بڑی ریلی تھی۔ امریکہ بھر کے دیگر علاقوں اور شہروں میں بھی اسی انداز سے خوشیاں پاکستانیوں نے منائیں، ان کو اس سے غرض نہیںکہ پاکستان کے حکمراں اور پالیسی ساز ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ بلکہ ’’وکٹری ریلی‘‘میں شریک ایک معمر خاتون تین نسلوں یعنی بیٹے اور ان کی اولاد سمیت یہ دعا کرتی دیکھی گئیں کہ ’’اے اللہ اس کرکٹ ٹیم کی طرح ہمیں سیاستدانوں کی بھی ایسی ٹیم عطا کر جو ہمارے پاکستان کو کرسی کی ذاتی سیاست سے نکال کر قوم کو اتحاد اور خوشحالی کی طرف لے جائے۔ سفارتکاروں کی بھی ایک ٹیم دے جو پاکستان کا عالمی وقار بلند کرسکیں اور ایسے بیوروکریٹس کی بھی ایک ٹیم جو ملک میں قانون اور اصول کی برتری اور یکساں سلوک کا ماحول پیدا کرسکیں‘‘۔پاکستانی کمیونٹی ڈونلڈ  ٹرمپ کی صدارت کے دور میں اپنے حقوق وسائل کیلئے بھی خود اپنی جدوجہد کررہے ہیں بلکہ ہمارے متعدد حکمرانوں کے غلط فیصلوں اور اقدامات سے پاک۔امریکہ تعلقات میں رنجشوں کا کفارہ بھی یہ بیچارے پاکستانی مختلف صورتوں میں ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ مگر پاکستان سے لگائو میں فرق نہیں آنے دیتے۔ امریکہ کے پاکستانیوں کو اسی ہفتے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دو روزہ دورہ امریکہ سے پیدا شدہ چیلنج کا یوں سامنا ہے کہ کشمیری برادری کی قیادت مودی کی آمد پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر وہائٹ ہائوس کےسامنے احتجاج کرنے کا پروگرام رکھتی ہے لیکن بھارتی میڈیا کی تنقید سے بے نیاز نریندر مودی امریکی میڈیا سے الفاظ کی جنگ میں مصروف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر 25جون کو یعنی عین عیدالفطر کے روز امریکہ پہنچیں گے اور پیر 26جون کو وہائٹ ہائوس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ امریکہ کے پاکستانی عیدالفطر کی خوشیوں میں مصروف ہوں گے۔ چیلنج یہ ہے کہ کتنے پاکستانی اور کشمیری 26 جون بھارت کے نریندر مودی کے خلاف مقبوضہ کشمیر کے انسانوں پر لرزہ خیز مظالم پر احتجاج کیلئے وقت نکالتے ہیں؟
نریندر مودی ایک بڑے ایجنڈے کے ساتھ واشنگٹن آرہے ہیںجبکہ صدر ٹرمپ خود تحقیقات، سخت تنقید اوربرصغیر کیلئے کنفیوژن کا شکار ہیں اور ابھی تک کوئی واضح پالیسی نہیں رکھتے۔ وہ ماحولیات کی تبدیلی کے پیرس ایگریمنٹ سے امریکہ کو نکالنے کا اعلان کرتے ہوئےبھارت پر یہ چوٹ بھی کرچکے ہیں کہ بھارت اس معاہدے میں اس لئے موجود ہے کہ دوسرے ملکوں سے اربوں ڈالرز کی غیرملکی امداد حاصل کرسکے۔ سابق صدر اوباما نے تو بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی دلیل پر بھارت کو اپنا ترجیحی پارٹنر بناکر تمام مراعات اور نوازشات لٹادی تھیں مگر صدر ٹرمپ نے اوباما کی اس پالیسی کو جاری رکھنے کی بجائے چین کے ساتھ براہ راست تعلقات کو فروغ دینے کی راہ اپنالی ہے جس پر بھارت پریشان ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کرکے اور قطر سعودی تنازع کھڑا کرکے مغربی ایشیا کو ایک نئے بحران میں تو دھکیل دیا ہے لیکن مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیاکے بارے میں ابھی کوئی واضح پالیسی اختیا رنہیں کی۔ افغانستان میں مزید امریکی فوجیوں کو بھیجنے کے فیصلہ پر بھی عمل ابھی اتنا یقینی نہیں ہے۔ واشنگٹن میں فارن پالیسی کی اسٹیبلشمنٹ ابھی تک پریشان اور کنفیوژڈ ہے۔ اس غیرواضح اور کنفیوژن کے ماحول میں بھارتی وزیراعظم اپنے ایجنڈے کے ساتھ واشنگٹن آرہے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق ان کے ایجنڈے کی صورتحال کچھ ہوں ہے۔ (1) صدر جارج بش کے دور میں 2006 میں بھارت۔امریکہ نیوکلیئر ایگریمنٹ  ہوا تھا اس پر عملدرآمد کرنے میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔چین نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میںبھارت کا داخلہ روک رکھا ہے اس مسئلہ کے حل کیلئے متبادل طریقہ اختیار کیا جائے (2) صدر ٹرمپ کے مشیر جنرل لیکماسٹر نئی دہلی کے دورہ کے دوران افغانستان میں داعش کے حوالے سے بھارت کے ساتھ جو گفتگو کرکے آئے تھے اسے امریکہ مزید آگے بڑھائے (3) صدر ٹرمپ نے اپنے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ ویزا سسٹم اور امیگریشن کیلئے جو سختیاں نافذ کررکھی ہیں اس کی وجہ سے ہر سال کئی ہزار بھارتیوں کو H-1B ویزا جاری کرنے میں دشواریاں حائل ہیں، بھارت کی خواہش ہے کہ اس بارے میں سختیاںدور کرکے صدر اوباما کے دور جیسی نرم پالیسی جاری کریں (4) پاکستان اور چین پائیدار دوستی اور سی پیک پر عمل بھی بھارت کیلئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے اور وہ اس صورتحال کو بڑھا چڑھاکر امریکہ کو بلیک میل کرکے ایک طرف پاکستان۔امریکہ تعلقات میں رخنہ ڈالنا چاہتا ہے تو دوسری طرف اپنے لئے مزید امریکی مراعات چاہتا ہے (5) دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر وہ پاکستان کے خلاف محاذ کو امریکی تعاون سے گرم کرناچاہتا ہے (6) مقبوضہ کشمیرکی صورتحال سے پریشان نریندر مودی جنوبی ایشیا میں ٹرمپ کی غیرواضح پالیسی اور چین سے براہ راست امریکی تعلقات کی استواری سے بھی پریشان ہیں لہٰذا ان کا مقصد پاک چین مضبوط تعلقات اور سی پیک کی عملی تصویر کو امریکی اور بھارتی مفادات کیلئے مشترکہ خطرہ قرار دیکر پاک امریکہ تعلقات میں تلخی پیدا کرنا اور امریکہ بھارت قربتوں کی کوشش کرنا ہے (7) افغانستان میںبھارت امریکی حمایت و تعاون سے افغان حکومت پر اپنا اثر و نفوذ مزید گہرا کرناچاہتا ہےتاکہ پاکستان کےخلاف افغان جانب سے بھی خطرات میں شدت اور اضافہ ہوسکے (8) بھارت امریکہ سے تجارت کو مزید فروغ دینا چاہتا ہے اور یہ موضوع بھی مودی کے ایجنڈے پر موجود ہے (9) بھارت اس وقت امریکی اسلحہ کا بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا خریدار ہے (سعودی معاہدہ کے علاوہ) اور وہ اسرائیل کے ساتھ بھی دفاعی، جاسوسی اور مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے حوالےسے تعاون میں شریک ہے وہ امریکہ سے بھی تعاون چاہتا ہے۔
گوکہ بھارتی وزیراعظم ٹرمپ سے تین مرتبہ ٹیلیفونک گفتگو کرچکے ہیں لیکن اپنے داخلی بحران اور مشکلات میں الجھے ہوئے صدر ٹرمپ کی بعض ایسی ترجیحات اور اقدامات ہیں جو بھارتی وزیراعظم کے ایجنڈے کی مخالفت میں ہیں مثلاً امریکہ پیرس معاہدہ کا مخالف ہے جبکہ بھارت اس میں شریک ہے ،امیگریشن کے قوانین اور ویزا سسٹم پر نظرثانی کرنے کے احکامات صدر ٹرمپ جاری کرچکے ہیں جبکہ وزیراعظم مودی نرمی چاہتے ہیں،تجارت کے شعبے میں بھارت۔
امریکہ تجارت میں موجودہ توازن بھارت کے حق میں ہے جبکہ صدر ٹرمپ تجارت کےشعبے میں امریکہ فرسٹ قرار دیکر امریکی مصنوعات کو فروغ اور دیگر ملکوں سے کم امپورٹ کے حق میں ہیں ، بھارت نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں چینی مخالفت کا نعم البدل امریکہ سے چاہتا ہے مگر صدر ٹرمپ نے اس بارے میں بھی ابھی کوئی پالیسی نہیں بنائی ، افغانستان کے بارے میں بھی ابھی تک صدر ٹرمپ کی پالیسی واضح نہیں ہے۔ ٹرمپ داخلی بحران، روس کی امریکی انتخابات میں مداخلت اور ٹرمپ سے رابطوں کے بحران سے نکلیں گے تو طے کریںگے، امریکہ میں بھارتی تارکین وطن سے بھی ہونے والی زیادتیاں صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے اعلان شدہ بیانات کا نتیجہ ہیں اور مسلم کمیونٹی بھی بھارتیوں سے زیادہ اس کا شکار ہے۔ لہٰذا صدر ٹرمپ اب اس معاملے میں اپنے حلقہ انتخاب کے ووٹرز کی سوچ کے پابند ہیں۔دو ٹوک الفاظ میں بھارتی وزیراعظم کا دو روزہ دورہ امریکہ عملی نتائج کم اور تصویری خبرنامہ پر زیادہ مرکوز ہوگا۔ مگر خدا لگتی ایک بات یہ بھی ہے کہ امریکہ کا دورہ کرنے والے پاکستانی حکمرانوں کو یہ توفیق کبھی نہیں ہوئی کہ وہ اپنے شہریوں کیلئے امریکی ویزا میں مراعات، تعداد اور امریکہ میں آباد پاکستانی تارکین وطن کے مسائل پر وہائٹ ہائوس میں کبھی کوئی سوال اٹھاسکیں یا امریکی صدر سے مطالبہ کرسکیں مگر نریندر مودی اپنے اس دورہ میں ٹرمپ کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے شہریوں کیلئے ویزا اور امریکہ میں سلو ک کے حوالے سے ایجنڈا لیکر آرہےہیں، خدا پاکستانی حکمرانوں کو بھی ایسی جرات اور توفیق دے۔

تازہ ترین