• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مذہب کی بنیاد پر جنگوں کا سلسلہ عیسائیت نے شروع کیا۔ شروع میں صلیبی جنگیں عیسائیت اور یہودیت کے درمیان ہوئیں۔ صلیبی جنگ یعنی CRUSADE کا لفظ بھی عیسائیت کی ایجاد ہے۔ یہودیت سب سے قدیم الہامی مذہب ہے۔ یہودی اپنا سلسلہ حضرت ابراہیم کے چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق سے جوڑتے ہیں۔ عیسائیت کے آغاز 2009 سال قبل حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے ہوا۔ قرآن حکیم یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے یہود و نصاریٰ کا لفظ استعمال کرتا ہے اور قرآن پاک میں دونوں مذاہب کا تفصیل سے ذکر ہے۔ دونوں کو اہلِ کتاب کہہ کر بھی مخاطب کیا گیا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان دشمنی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ درست بات تو یہ ہے کہ یہ دشمنی 2009 سال ہی پرانی ہے۔ اس دشمنی کی بنیادی وجوہات مذہبی ہیں جس کا آغازحضرت عیسیٰ کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ یہودی حضرت عیسیٰ کو بھی پیغمبرانہ مسیحا نہیں مانتے اور انہیں یہودی قرار دیتے ہیں۔ وہ حضرت مریم کی دوشیزگی کے بھی منکر ہیں اور حضرت عیسیٰ کے معجزوں کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ یہودی اس بات کو بھی نہیں مانتے کہ حضرت عیسیٰ  کو اللہ پاک نے آسمانوں کی جانب اٹھالیا تھا اور ان کا دوبارہ نزول ہوگا۔ دوسری طرف عیسائی بھی یہودیوں کے ساتھ بہت سے مذہبی اختلاف رکھتے ہیں اور یہودیوں کو اللہ پاک کی منتخب قوم تسلیم نہیں کرتے۔ عیسائی یہودیوں پر ان کے خدا کے قاتل ہونے یعنی CHRIST KILLER ہونے کا بھی الزام لگاتے ہیں۔ عقائد کے انہی اختلافات کے باعث یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان صدیوں تک جنگیں ہوتی رہیں اور ان میں کروڑوں عیسائی اور یہودی موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ یہ جنگیں 70ء عیسوی میں حضرت سلیمان کے تعمیر کردہ محل جس کو یہودی اپنی مقدس ترین عبادت گاہ جانتے ہیں اور اسے ہیکل سلیمانی یا Temple کے نام سے یاد کرتے ہیں کی تباہی کے بعد شروع ہوگئی تھیں۔چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کی تو بیت المقدس عیسائیت کے قبضے میں آگیا اور عیسائیوں نے یہودیوں کو زبردستی وہاں سے نکال دیا۔ عیسائی فاتح بن گئے اور یہودیوں کا قتل عام کیا گیا۔ ان کو زبردستی عیسائی بھی بنایا گیا۔ جائیدادوں پر قبضہ کرلیا گیا اور ان کو بیت المقدس سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔ یہودیوں کے قتل عام کا سلسلہ بیسویں صدی کے وسط تک مغرب میں جاری رہا یعنی 1944-45ء تک جب جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کیا۔ اس قتل عام کو یہودی HOLO COUAST کا نام دیتے ہیں۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے دوسری جنگ عظیم کے ہولو کاسٹ میں بھی کم از کم ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتل کیا گیا۔ اگر پندرہویں اور سولہویں صدی تک کی جنگوں کو مغرب DARK AGES کا نام دے کر ان سے منہ چرانے کی کوشش بھی کرے تو بیسویں صدی کے مہذب یورپ اور مغرب میں ہونے والے ہولو کاسٹ کو کیا نام دیا جائے گا جس میں یہودیوں کے بقول سات لاکھ یہودیوں کا قتل عام ہوا۔ شاید اسی لئے علامہ اقبال کے کہنے پر مجبورہوئے تھے۔
تو نے کیا دیکھا نہیں یورپ کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
(یہ شعر علامہ صاحب نے 1932ء کی دہائی میں ہولو کاسٹ سے پہلے کی یورپ میں ہونے والی قتل و غارت گری پر لکھا تھا)
یہودی تعلیم اور جدید میدانوں میں ہمیشہ آگے رہتے ہیں۔ ہجرت کے بعد جناب رسول اللہﷺ نے مدینہ آکر انصار کے بعد دوسرا معاہدہ یہود کے تین قبائل یعنی بنو نزار، بنو قریظہ اور بنو قینقاع کے ساتھ کیا۔ تاریخ اسلام بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور حضرت ابراہیم پر ایمان کے باعث یہودی مذہبی طور پر مسلمانوں کے قریب رہے اور جنگ خیبر میں شکست کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی تھی بلکہ اسپین پر مسلم حکمرانی کے دور تک مسلمان اور یہود ایک دوسرے کے ساتھ امن اور سلامتی کے ساتھ رہے۔ یہودی عیسائی یورپ کے دور میں مسلمانوں کے علاقوں میں رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ یہودی مورخین مسلم اسپین کے دور کو اس وقت کے عیسائی علاقوں کی نسبت کے حوالے سے اپنا سنہرا دور لکھتے ہیں۔ اس کے اشارے یورپ یہودیوں اور مسلمانوں کی تاریخ میں ملتے ہیں۔ پھر اس کے بعد کیا ہوا یہ داستان حیرت اور عبرت دونوں پہلو لئے ہوئے ہے۔کالم لکھنے بیٹھا تو معلوم ہوا کہ تمہید بہت لمبی ہوگئی مگر یقین کریں کہ بہت مختصر الفاظ میں ایک لمبی تاریخ کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ آج کے دور میں موجودہ مغرب، یورپ، امریکہ کے عیسائیوں یہودیوں کی پالیسی کو سمجھا جاسکے۔انقلاب فرانس یورپ کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل تھا۔یورپ اپنے اندر کی خونیں جنگوں اور قتل و غارت گری سے تنگ رہتا تھا وہ ان جنگوں کی ذمہ داری پاپائیت اور کلیسا پر ڈالتا تھا۔ یہودیوں کی بھی بڑی تعداد ان جنگوں کی ذمہ داری مذہبی یہودیوں کی دقیانوسیت پر ڈالتی تھی اور آج بھی ڈالتی ہے۔ ان حالات میں عیسائیوں اور یہودیوں کی ایک بڑی تعداد جدیدیت کو اپنانے اور عیسائیت اور یہودیت میں اصلاحات کرنے یعنی REFORMING RELIGION کی جانب بڑھی۔ سیاسی حکومتی نظام کے علاوہ تعلیم کو بھی جدید بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے اصلاحات کا آغاز ہوا۔ اس موضوع پر اپنی ایک تاریخ ہے جو دلچسپ اور فکر انگیز ہے۔
یہودی اور عیسائی جب یورپ اور امریکہ میں انقلابی تبدیلیاں لارہے تھے اور ایک دوسرے کو قبول کرنے، ماضی کی جنگوں سے سبق سیکھنے اور مذہبی رواداری کے فروغ میں مصروف تھے تو مشرق کے مسلمان خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے تھے۔ بغداد اور اسپین کی تباہی کے بعد یا تو وہ ہمت ہار بیٹھے اور ملت سے قومیتوں میں بٹ گئے یا انہوں نے کاہلی، عیاشی اور ہوا وہوس کو اپنا جینا مرنا اوڑھنا بنالیا۔ یہی نہیں ایک اور بڑی تبدیلی مسلمانوں میں یہ بھی آئی کہ انہوں نے جدید تعلیم کو خانقاہوں اور مساجد تک محدود کرلیا۔ مسلمانوں میں یہ سوچ جڑ پکڑنے لگی کہ یہ دنیا مسلمانوں کے لئے نہیں ہے۔ بہت سی اصلاحی تحریکیں اٹھیں اور دم توڑ گئیں۔ سرسید احمد خان چلّاتے رہے اور علامہ اقبال بھی دہائی دیتے رہے کہ مسلمانوں پر بے عملی کی وجہ سے عذاب آیا چاہتا ہے اور ان کو مٹانے کی تیاریاں زورشور سے جاری ہیں۔
ہوگیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
مسلمان سوتے رہے عیسائی اور یہودی نہ صرف جاگتے گئے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کو سلائے رکھنے اور ایک دوسرے کیساتھ لڑائے رکھنے کیلئے جامع بنیادوں پر دور رس نتائج کی حامل منصوبہ بندی کی۔ سلطنت عثمانیہ توڑنا اور مسلمانوں خصوصاً عربوں کی طاقت کو توڑنا۔
ہندوستان کو اس طرح تقسیم کرنا کہ یہ خطے کبھی بھی امن اور سکون سے آشنا نہ ہوسکیں اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا اس طرح قیام کہ مغرب اور امریکہ کی جانب مشرق وسطیٰ کے وسائل کا بہاؤ جاری ہے اور عرب اور فلسطینی ایک دوسرے کے گریبان پھاڑتے رہیں۔ علامہ اقبال اس پر بھی چلّاتے رہے۔
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز
محکوم و مجبور مسلمان نہ کل سمجھے تھے نہ آج سمجھیں گے کہ ان کیلئے یورپ اور امریکہ کی آئندہ کی حکمت عملی کیا ہے، مزید بات آئندہ کے لئے۔
تازہ ترین