• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھاج تو بولے چھلنی کیوں بولے,,,,ناتمام…ہارون الرشید

افق پر طوفان کے آثار ہیں۔ رک جائیے حضور، زمانہ بدل چکا۔ کوئی نہ بچے گا۔ کوئی ظالم نہ بچے گا۔ رک جائیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔
شاعر کو شکایت تھی کہ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پہ ناحق۔ اخبار نویس مگر اپنی فرد عمل خود لکھتا ہے۔ عظیم ترین انسانی مغا لطوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنی ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے ، اس کی اصل شخصیت سے ، جس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تصویر سازی یعنی (Image building)ایک احمقانہ مفروضہ ہے ۔ سگریٹ ، صابن اور ٹوتھ پیسٹ کی بات دوسری ہے ۔ جہاں تک آدم زاد کا تعلق ہے ، وہ کیسا ہی بہروپ بھر لے ، درحقیقت ویسا ہی نظر آتا ہے ، جیسا کہ دراصل وہ ہوتا ہے ۔ ہمارے صنعت کار دوست محسن طارق بہت دن سے نہیں ملے ۔ کیسی نکتے کی بات کرتے ہیں ۔ ایک دن یہ کہا: وہ احمق نہیں تو اور کیا ہے جو کسی مینار یا پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہو جائے ۔ سیاست میں آجائے کہ لوگو، مجھے دیکھو، میں کیسا خوش خصال ہوں۔ اپنے عیوب آشکار کرنے کے سوا وہ کیا حاصل کرے گا۔ تیرہ برس تک ، کس طرح ڈٹ کر عمران خاں کا مقدمہ لڑا گیا۔ اس کی سادگی، صداقت شعاری، شجاعت اور خدمتِ خلق سے تو کبھی کسی کو انکار نہ تھا لیکن کیا اسے ایک سیاسی مدبّر ثابت کیا جا سکا؟ اللہ تعالیٰ سبھی کو امان میں رکھے اور تلافی کی توفیق دے ۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے فرمایا تھا: کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں، جب تک اس کا ظاہر و باطن آشکار نہ ہوجائے۔ شاعر شعیب بن عزیز کا قول یہ ہے "مبالغہ بھی کریں تو نباہنے تک ہے"۔
بعض اخبار نویسوں نے کچھ دن سے عجیب روش اپنا لی ہے ۔ حکومت پر نکتہ چینی کرنے والوں کی مذمت میں وہ حد سے گزر گئے۔ طرح طرح کے نام رکھتے اور پھبتیاں کستے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر سنگ زنی کی ایسی جرأت۔ اقتدارکی غلام گردشوں میں کیسی ہوا بہتی ہے کہ آنکھیں ہی چندھیا جاتی ہیں، عقلیں دم توڑ دیتی ہیں۔ ذاتی احترام لازم ہے اور وضع داری ہاتھ پکڑ لیتی ہے ، ورنہ ایک ایک کے کارنامے گنوائے جا سکتے ہیں۔ پھر وہ کہاں پناہ پکڑیں گے۔ پنجابی محاورے کے مطابق کس کی ماں کوماسی کہیں گے۔ ایک صاحب بہت بے قابو ہو رہے تھے۔ عرض کیا کہ آنجناب کے کم از کم 17کروڑ روپے لندن کے ایک بینک میں پڑے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایک کے بعد دوسری حکومت کی خدمت گزاری اور اس کردار کے طفیل جو موزوں الفاظ میں بیان کیا جائے تو کاغذ آلودہ ہو جائے۔ کچھ دن قرار سے رہے لیکن اب پھر سے دہن بگڑ رہا ہے ۔ انہیں خوش فہمی ہے کہ وہ بڑے جنگجو ہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ چند ساعت بھی ٹھہر نہ سکیں گے۔ خوف کا عالم یہ ہے کہ ہر شب نیا ٹھکانہ تلاش کرتے ہیں۔
شاہین صہبائی ، ڈاکٹر شاہد مسعود اور کامران خان سے مجھے نیاز حاصل نہیں۔ شاہین صاحب سے برسوں پہلے ایک مختصر سی ملاقات ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب گزشتہ ہفتے اسلام آباد آئے اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو عرض کیا کہ غریب خانے کو رونق بخشیں مگر شاید مصروفیت کے سبب نہ آسکے۔ انصار عباسی اور رؤف کلاسرا سے دوستانہ بے تکلفی کے ساتھ عرض کیا: جو کچھ آپ لکھتے ہیں، وہی لکھئے کہ آدمی کو اپنے ذوق اور ضمیر کے مطابق ہی بات کرنی چاہئے لیکن اگر ممکن ہو تو لہجے کی تلخی کسی قدر کم ہونی چاہئے۔ عنایت یہ ہے کہ ہر بار میری بات توجہ سے سنی ، حالانکہ وہ بڑے قد آور اخبار نویس ہیں۔
"منفی ایک"فارمولے کا چرچا ہوا تو شاہین صہبائی ، ڈاکٹرشاہد مسعود ، کامران خان اور انصار عباسی پر بے رحمی سے نکتہ چینی ہونے لگی۔ کبھی نام لے کر اور اکثر نام لئے بغیر لیکن بیشتر تحقیر کے انداز میں۔ ضروری نہیں کہ ان کے تجزیوں سے اتفاق کیاجائے اور ان کی خبروں کے ہر لفظ اور تناظر پر ایمان لایا جائے ۔ خود اس ناچیز کو بھی اختلاف ہوتا ہے لیکن کیا بنیادی طور پر وہ سچّے لوگ نہیں؟ کیا وہ ہماری صحافت کا سرمایہ نہیں۔ حیف کہ معمولی لوگ ان پر طعنہ زن ہوں۔ شاہی خاندانوں کے قصیدے لکھنے والے ان کا مذاق اڑانے کی کوشش کریں۔ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ایّامِ اسیری سے رؤف کلاسرا کے ذاتی مراسم ہیں لیکن خبر میں وہ رعایت نہیں کرتے۔ نون لیگ کے لیڈر ان سے ناراض ہوئے ۔ اس جماعت کی ویب سائٹ پر کردار کشی کی مہم شروع ہوئی ۔ میں نے ٹوکا تو مجھے بھی گالی دی اور اب تک جاری ہے ۔ افسوس کہ بعض اخبار نویسوں نے اس کارِ خیر میں خفیہ طور پر ہاتھ بٹایا۔ کامران خان نے مالی بدعنوانی پر جو انکشافات کئے، ان میں سے کسی ایک کی تردید نہ کی جا سکی۔ اس نظامِ زروظلم کے غلیظ باطن کو انہوں نے واشگاف کر دیا اور یہی وہ خدمت ہے جو ایک صحافی انجام دے سکتا ہے ۔ سب سے بڑی خبر لیکن انصار عباسی نے دی ہے چنانچہ واویلا بھی بہت ہے ۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کہانی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے لکھی گئی۔ انصار عباسی سے مجھے اختلاف ہوتا ہے اور تناظر کا ایسا شدید اختلاف کہ شاید کبھی تحلیل نہ ہو سکے لیکن اگر وہ خفیہ ایجنسیوں کا کارندہ ہے تو پھر اس ملک میں ایک بھی آزاد اخبار نویس موجود نہیں ۔ میں گواہ ہوں کہ آئی ایس آئی کے ایک سربراہ کو اس نے ٹکا سا جواب دے دیا تھا ۔ رؤف کلاسرا کی اہلیہ کو دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ پہاڑکی طرح وہ ڈٹ کر کھڑے رہے۔افسانے الگ ، شاہین صہبائی کی آزاد روی میں کسی احمق یا متعصب ہی کو کلام ہو گا۔ انہی چند آدمیوں کا ذکر نہیں، گزشتہ چند برس میں پاکستانی اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے ایک سے بڑھ کر ایک جواں مرد اخبار نویس کو دیکھا ہے ۔ فرشتے نہیں، وہ آدمی ہیں، خامیاں ہیں، گاہے تعصبات غالب آتے ہیں، پسند اور نا پسند بھی ۔ کبھی کوئی حماقت بھی کرگزرتا ہے، اندازے غلط بھی ہو جاتے ہیں،کبھی اس نفرت کا غلبہ بھی جو غریب اور درمیانے طبقے سے ابھرنے والوں کو ظلم اور ظالموں سے لازماً ہوتی ہے لیکن بددیانتی؟ اگر یہ لوگ بددیانت ہیں تو دیانت داری کیا ہوتی ہے۔ بخدا یہ لوگ اکثر سیاستدانوں سے ہزارگنا بہتر ہیں۔ اختلاف بجا لیکن انجیل کی اصطلاح کے مطابق یہی لوگ زمین کا نمک ہیں اور ان کے ہم نفس۔ مناصب ، دولت اور سرپرستی درکار ہوتی تو اپنے طعنہ زنی کرنے والوں کی طرح وہ بھی درباروں کا طواف کرتے۔ عیب جوئی کرنے والوں کی پوری تصویر دکھا دی جائے تولوگ دنگ رہ جائیں لیکن یہ مقصود نہیں ۔ ہونا بھی کبھی نہ چاہئے۔ بحث افراد سے نہیں ، ظلم اور بدعنوانی سے ہے ۔ بہت ہو چکا، بہت ۔پستی اور زوال کی کوئی آخری حد بھی ہے یا کہ نہیں، جہاں اس ملک اور معاشرے کو جا رکنا ہے ۔ استعمار کے کارندوں اور قومی خزانہ لوٹنے والوں کی مدح سرائی اور اپنے قبیلے کے بہترین لوگوں کی کردار کشی؟ رک جائیے حضور، زمانہ بدل چکا۔ افق پر طوفان کے آثارہیں۔مہلت مختصر ہے،یہی دو تین برس ہیں۔آزاد عدلیہ ، بیدار عوام اور جاگتے اخبار نویس فیصلہ صادر کریں گے۔اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔ کوئی نہ بچے گا، کوئی ظالم نہ بچے گا۔ رک جائیے ، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
تازہ ترین