• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی امریکہ سے جہاز سے اترے چند گھنٹے ہوئے تھے کہ بوگھیو صاحب کا فون آیا کہ فوراً اکیڈمی آئیں، ہم نور الہدیٰ شاہ کے ساتھ شام منارہےہیں۔ اصل میں اکیڈمی نے اگلے بورڈ میں نور کو تازہ تازہ شامل کیا ہے۔ میں نے کہا بھی کہ جیسے سپریم کورٹ میں شیخ رشید خراٹے لے رہے تھے، میں بھی وہاں شامل ہو کر خراٹے ہی لوں گی، مگر نور کی محبت اور بوگھیو صاحب کے حالات سارے ادیبوں کے سامنے سنائے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس دن بہت سی نوجوان لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ جب نور نے کہا کہ اس نے اپنا پہلا ڈرامہ سترہ سال کی عمر میں لکھا تھا، تو سب حیران ہوگئے۔
گھر واپس لوٹی ، تو امریکہ کے سفر کا نقشہ میرے سامنے گھومنے لگا، سعید ، سمرین ، شہلا ،طاہرہ اور عذرا اپنی اپنی فرد جرم اٹھائے سامنے تھیں۔ میں نے فرد جرم کیوں کہا۔ بھئی میں تو اتنی عزت اور احترام کے لائق نہ تھی۔ اب یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ مجھے سربراہ مملکت کا سا درجہ دیا کہ اب تو سربراہ کے بارے میں، جس کے منہ میں جو آتا ہے کہہ جاتا ہے۔ زبان ایسی بگڑی ہے کہ کوئی بھی امریکی دوست ان کی باتوں پر تبصرہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ جب سارے دوستوں سے امریکہ میں منتقلی کا سبب پوچھا تو کئی جگہ تو کراچی میں ہونے والے مظالم کی داستان سن کر میں نے ان کا منہ بند کیا۔ یہ وہی زمانہ ہے جب ہر شام کئی جگہ سے بوری بند لاشیں ملا کرتی تھیں۔ یہ وہی زمانہ ہے کہ جب نوجوانوں کو مارنے کے بعد ، ان کے نام پر چوکوں کا نام رکھ دیا جاتا تھا۔ ہر ایک کی داستان کسی نہ کسی مجبوری پر ختم ہوتی تھی۔ پھر بھی سال کے سال وطن کی گلیوں میں اپنی جوانی کو یاد کرتے یہ لوگ اب بھی ان ادیبوں کو یاد کررہے تھے جو ہزاروں شعر دے کر، زندگی سےہار گئے۔ ہم ان کے شعر دہراتے ، ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں اس مرثیہ خوانی میں کبھی وہ لوگ افسردہ ہو جاتے ، کبھی میں۔
پہلی بات تو یہ ہےکہ ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشن اپنانے یہ مشاعرہ بھی دیگر تقریبات کی طرح رکھا تھا۔ میں لائونج میں بیٹھی ، بچیوں اور خواتین کو دیکھ کر حیران تھی کہ کیا یہاں آسکر ایوارڈ کی تقریب ہورہی تھی کہ نوجوان بچیاں تو خیر ہے، میری عمر کی خواتین بھی نت نئے فیشنوں کے کپڑے پہنے ہوئے تھیں، رات کے تین بجے جبکہ مشاعرہ ختم ہوا تو دیکھا کہ لڑکے لڑکیاں خوش گپیاں کررہے ہیں۔ شکر ہے یہاں پاکستانی پولیس نہیں تھی، ورنہ اسلام آباد کے فنکشن کی طرح انہیں گرفتار کرلیتی مشاعرے سے چار دن پہلے ، احمد پور شرقیہ اور پارا چنار کے خونی واقعات ہوئے تھے اور زیادہ لوگ برن سینٹر کی عدم موجودگی کے باعث زندگی سے منہ موڑ گئے تھے۔ میں نے ڈاکٹروں سے اپیل کی کہ ہر چند وہ لوگ بہت سے خیراتی کام اپنے وطن کے لئے کرتے اور پیسے جمع کرتے ہیں۔ میں نے درخواست کی کہ پاکستان کے بیشتر اسپتالوں میں برن سینٹرز نہیں ہیں۔ اپنی توجہ اس طرف مائل کریں۔ اپنا کے یہ جتنے چھوٹے بڑے شاعر تھے، وہ اس قدر خدمت کررہے تھے کہ مجھے شرمندگی ہونے لگتی تھی۔ اب آپ سب کہیں گے کہ خواتین کی جانب سے دیئے گئے کھانوں کا میں ذکر کروں ۔ کیا کروں ایئرپورٹ سے اترتے ہی حمیرا رحمان نے، پھر طاہرہ نقوی نے تو عجب اہتمام کیا ۔ امریکہ کی ایک کتھک ڈانسر کو بلایا، اس سےمیری نظموں کو پڑھوا کر پانچ نوجوان ڈانسروں کی پر فارمنس کروائی۔ اس کی ٹیپ سنوائی مگر جب میں نے اس کی کاپی مانگی ، حتیٰ کہ طاہرہ نے اپنے لئے مانگنے کی ضد کی ، بالکل ایسا لگا جیسا کہ شرمین نےتیزاب سے جلی خواتین کی فلم پبلک کو دکھانے سے گریز کیا تھا۔ میرے ساتھ یہ اکثر ہوتا ہے۔ لندن میں ملکہ سارہ بائی نے پانچ نظموں پر سنا ہے بہت شاندار پرفارمنس کی ، ایک دفعہ نہیں ، کئی دفعہ کی اور کئی جگہ کی مگر ہم اور پاکستان کے لوگ محروم رہے۔ ابھی تو پاکستان میں آمنہ نواز ، اچھی بچی ہے، بہت جگہ میری نظموں پر ڈانس کررہی ہے، مگر ایک چیز ہوتی ہے ، اجازت یہ بات، پاکستان ، ہندوستان کیا، امریکہ میں بھی مفقود ہے۔ آج کل سعید نقوی ، ایک انڈین تھیورسٹ کی کتاب جو کہ ’’جہیز‘‘ سے متعلق ہے، اس کا ترجمہ کررہے ہیں، مسئلہ پڑا ہوا ہے کہ ان صاحب سے اجازت کون لے اور جتنے مقبول وہ صاحب ہیں ، ان کو رائلٹی شائع کرنے والا ادارہ دے کہ مترجم۔
یہیں مجھے خواجہ احمد عباس کی بھانجی شہلا نقوی کا محنت سے کیا ہوا ، خواجہ صاحب کی کہانی کا ڈرامہ یاد آگیا جو کہ اگر ہمارے پی ٹی وی والے حاصل کرنے کی کوشش کریں تو شہلا بہت نرم دل خاتون ہیں، وہ اجازت دے دیں گی۔ ادھر طاہرہ نقوی نے عصمت چغتائی کی تمام کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، جسےدلی میں رتو مینن نے شائع کیا ہے۔
اب آئیے چلیں ڈاکٹر عذرا رضا کے گھر ، جنہوں نے کوئی پچاس ساٹھ لوگ بلائے تھے ، میں نظمیں سناتی اور پاکستان کے حالات بتاتی جاتی تھی۔ ایک سوال جس کا میرے پاس جواب نہ تھا کہ آخر ہم القاعدہ کو ختم اب تک کیوں نہ کرسکے۔ جنرل راحیل شریف سعودیہ کیوں اور کیسے گئے، اندر کی بات کیا ہے کہ غیرملکی پریس تو بہت کچھ لکھ رہاہے۔ میں نے جواباً نظم سنادی ’’ہمیں ایسے غلام چاہئیں‘‘ سب کو تسلی نہ ہوئی اور اب جب سمرین اور سعید کے گھر لوگ شعر سننے کو جمع ہوئے تھے پاکستان میں پھیلی کلبلاہٹ نے پھر سر اٹھایا۔ میں نے موقع بدلتے ہوے کہا کہ سمرین نے سارا دن لگ کر نہاری اور بت کریلے بنائےہیں۔ آئیے اس کی لذت لیں۔ اس کے بعد مت پوچھیں ، فلائٹ تین گھنٹے لیٹ، سامان نہیں آیا۔ پر مجھے خوشی ہے میں آپ سے ملاقات کررہی ہوں۔

تازہ ترین