• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرق وسطیٰ کے بعد سائوتھ ایشیا یعنی ہمارے خطے میں بھی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیںگو کہ ابھی تک اس باز گشت کی گونج زیادہ نہیں ہے لیکن جلد ہی اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور تبدیلی کی یہ گونج سب کو واضح طور پر سنائی دینے لگے گی ، عرب دنیا کے حالات کا مستقبل قریب میں کوئی دیر پا حل ہوتا نظر نہیں آرہا لیکن یہ بات اہم ہے کہ سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک اور قطر کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے میں برادر اسلامی ملک ترکی فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ ترک صدر طیب اردوان نے گزشتہ دنوں قطر ، کویت اور سعودی عرب کے دورے کئے، خوش آئند بات یہ ہے کہ اب تک آنے والی اطلاعات کے مطابق ترک صدر کے ان دوروں کے نتیجہ میں قطر اور عرب ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی واقع ہوئی ہے اور یہ امید کی جارہی ہے کہ آئندہ دنوں میں یہ کشیدگی مزید کم ہو جائے گی بلکہ اس امر کا قوی امکان ہے کہ آنے والے چند ماہ کے دوران عرب ممالک اور قطر کے حالات پہلے کی طرح معمول پر آجائیں۔ ترکی فی الوقت قطر اور عرب ممالک کے درمیان تن تنہا معاملات طے کروانے کی کوششوں میں مصروف ہے پاکستان کو بھی عرب ممالک کے مابین تنازعات کے حل کے لئے ترکی کے ساتھ مل کر کردار ادا کرنا چاہئے تھا لیکن ملکی حالات اور اندرونی خلفشار کی وجہ سے ایسا پوری طرح سے ممکن نہ ہوسکا، ایک سال قبل تک ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان اسلامی دنیا کو درپیش تمام مسائل حل کروانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہم اسلامی دنیا میں اپنی اہمیت کھوتے چلے جارہے ہیں ، جس کی مثال یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں وزیراعظم پاکستان اور اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے دونوں ملکوں کے ہنگامی دورے کئے اور کشیدگی کم کروانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا مگر اب حقیقت اس کے برعکس ہے۔یہ تلخ حقیقت کسی بھی طرح قومی مفاد کی حامل نہیں اس حوالے سے ہماری ریاستی قوتوں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان پر روسی حملہ سے لے کر 9/11کے بعد امریکی افواج کے افغانستان پر حملے اور طالبان حکومت ختم کرنے کے بعد بھی پاکستان خطے کا اہم ترین ملک رہا ہے آج بھی اس بات کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے بغیر خطہ میں امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہوسکتا۔اوباماانتظامیہ نے اپنے دونوں ادوار میں سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں میں چند بنیادی تبدیلیاں کرتے ہوئے خطے میں پاکستان کی بجائے بھارت کا رول بڑھا دیا تھا۔ یہ تجربہ ناکام ثابت ہوا ،موجودہ صورتحال یہ ہے کہ طالبان ہر آنے والے دن میں نا صرف افغانستان میں اپنی کارروائیاں تیز کر رہے ہیں بلکہ ان کے زیر تسلط علاقوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کو اس حوالے سے شدید تشویش لاحق ہے جس پر وہ نئی پالیسی تشکیل دے رہی ہیں اس ضمن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز قبل پینٹا گون کا دورہ کیا جہاں پر انہیں افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر بریفنگ دی گئی، دوسری طرف امریکی میڈیا پاکستان پر دبائو بڑھانے کیلئے مختلف دستاویزی فلمیں اور ٹاک شوز دکھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جن کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کرتا آرہا ہے ، امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک طرف تو ہم سے امداد لیتا ہے اور دوسری طرف وہ حقانی نیٹ ورک ختم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کر رہا بلکہ وہ حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر انتہا پسند گروپوں کو ہر طرح کا تحفظ بھی فراہم کر رہا ہے ۔ امریکی میڈیا سابق جرنیلوں کے انٹرویوز بھی چلا رہا ہے جو واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ افغانستان اور بھارت میں دہشت گردی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے ان کے ایک سابق فوجی جرنیل نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ طالبان پاکستان کے مختلف شہروں سے چندہ اکٹھا کرتے ہیں اور یہ پیسہ وہ افغانستان میں ہمارے خلاف جنگ میں استعمال کر رہے ہیں۔ جرنیل کا مزید کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں حقانی نیٹ ورک مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے کیونکہ اس کی جڑیں پاکستان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ 9/11کے بعد سے اب تک جتنی بھی امریکی حکومتیں رہی ہیں ان کا ہمیشہ پاکستان سے مطالبہ رہا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ کرے۔ انٹرویو کے دوران اس جرنیل نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کو چاہئے کہ وہ پاکستان میں جہاں جہاں حقانی نیٹ ورک اور دیگر انتہا پسند گروپس موجود ہیں وہاں پر سرجیکل اسٹرائیک کرے۔ پاکستان میں ملا منصور کی ہلاکت کو بنیاد بنا کر امریکی میڈیا یہ شور بھی مچا رہا ہے کہ ابھی بھی طالبان شوریٰ پاکستان میں موجود ہے اور اس کو پاکستان کی حمایت بھی حاصل ہوسکتی ہے ایک طرف امریکی میڈیا اور کانگریس پاکستان پر دبائو بڑھانے کی بات کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ کے جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے بغیر جنگ جیتنا ناممکن ہے ، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں لیکن اب یہ تعلقات نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ امریکی میڈیا پر یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان پر کڑی پابندیاں ، سخت شرائط عائد کرے اور امداد روکنے کے ساتھ ساتھ ڈو مور کا مطالبہ بھی کرے ، لیکن یہ بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں بھارت کا رول مزید بڑھانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے ، خطہ کی صورتحال کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کے اس نئے نقطہ نظر اور لائحہ عمل کو تشویش ناک قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ ہمارے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند روز قبل افغانستان میں موجود امریکی افواج کے کمانڈر سے ملاقات بھی کی تھی اور اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ۔ امریکی تھنک ٹینک اور میڈیا میں مختلف حکمت عملی کے تحت یہ کہانی بھی سنانا شروع کر دی ہے کہ روس ، پاکستان اور چین مل کر افغانستان میں عدم استحکام پھیلا رہے ہیں اس تناظر میں امریکی میڈیا کے سب سے بڑے گروپ نے ایک ڈاکومنٹری بھی دکھائی جس میں طالبان روسی ساختہ اسلحہ استعمال کرتے نظر آرہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ روس ، چین اور پاکستان افغان ایشو پر ہم خیال ہوچکے ہیں اور ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر آتے جارہے ہیں۔ موجودہ صورتحال انتہائی سنجیدہ اور تشویشناک ہے جس کا ادراک شاید ہمارے سیاستدانوں کو نہیں ہے اسی لئے ایک سال سے زائد عرصہ سے حکمران جماعت اور اپوزیشن میں موجود تمام سیاسی پارٹیاں کرسی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہیں خطہ اور اپنے گرد و نواح میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ذرہ بھر بھی احساس نہیں ہے ۔ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہی جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران جماعت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی پارٹیاں خطہ اور ملک کو درپیش مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے استحکام کیلئے یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ میڈیا پانامہ ، کرپشن کیس اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے ہوئے سیاستدانوں کو نمایاں طور پر کوریج دے رہا ہے خطہ کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہمارے ریاستی اداروں بشمول حکومت کو مل کر نئی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے بلکہ اس حوالے سے پارلیمنٹ کو استعمال کرتے ہوئے تمام قومی قیادت سے موجودہ صورتحال پر رائے لی جائے تاکہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر بننے والی خارجہ پالیسی میں تمام قومی قیادت ہم آواز ہو۔ میڈیا اور قومی قیادت اس انتہائی اہم ایشو پر انتہائی سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین