• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیم کو افراد اور اقوام کی ترقی کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں انہی قوموں نے ترقی کی جنہوں نے تعلیم کو اپنا ہتھیار بنایا ۔ افراد کی مثال بھی اسی طرح ہے۔ تعلیم جیسے ہتھیار نے بہت سوں کی قسمت بدل کر رکھ دی۔ ہمارے ارد گرد ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح تعلیم جیسے خزانے نے لوگوں کو غربت کی زندگی سے نکال کر اعلیٰ ترین مناصب پر فائز کر دیا۔ سیاست، صحافت، بیوروکریسی سمیت ہر شعبہ میں ایسی مثالیں موجود ہیں ۔بہت سی نامور شخصیات اپنے غربت سے بھرپور ماضی کا تذکرہ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ ایسے لوگو ں کو سن کر رشک آتاہے کہ کیسے ایک فرد کی تعلیم اور جہد مسلسل نے پورے خاندان کا نصیب بدل ڈالا۔ خوش آئند امر ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کی اہمیت سے متعلق آگاہی میں اضافہ ہوا ہے۔ آج کے زمانے میں ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسکے بچے اسکول میں داخل ہوں، کالج اور یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کریں۔ گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرنے والے ملازمین بھی اپنے بچوں کو پڑھانے کیلئے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر سال میٹرک کے امتحانات میں انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم ٹاپ پوزیشنیں لے اڑتے ہیں۔ اس بار بھی میٹرک کے امتحانی نتائج میں یہی صورتحال سامنے آئی۔ تعلیم کی اہمیت سے متعلق شعور اجاگر کرنے میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ گزشتہ کچھ بر سوں سے حکومتیں بھی عوام میں تعلیم کا شعور بیدار کرنے اور شرح تعلیم بڑھانے میں کوشاں رہی ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو،صاحبان اقتدار کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکے دور حکومت میں تعلیم کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئے۔ مشکل یہ ہے کہ محض خواہش سے معاملات کی اصلاح احوال ممکن نہیں ہوتی ۔ اس کیلئے موثر منصوبہ بندی اور کڑی محنت درکار ہوتی ہے۔
جہاں تک منصوبہ بندی کا تعلق ہے تو شعبہ تعلیم میں اسکا انتہائی فقدان رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہائیاں گزرچکیں مگر ہم چند اہم بنیادی معاملات بھی خوش اسلوبی سے حل نہیں کر پائے ۔ مثلا ستر برس بیت چکے مگر تاحال ہم پرائمری تعلیم کا سو فیصد ہدف حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اسکے لئے منصوبے بھی بنتے رہے ہیں۔ بھاری بھرکم بیرونی امداد بھی وصول ہوتی رہی ۔ مگر یہ ہدف ابھی تک ہماری پہنچ سے باہر ہے۔ ایک اہم آئینی معاملہ اردو زبان سے متعلق ہے۔ برسوں سے ہم اس بحث میں الجھے ہیں کہ ذریعہ تعلیم اردو ہو یا انگریزی ۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں میں بھی ہم اس بحث میں الجھے رہیں گے۔ اس قضیے کے حل کی غرض سے کبھی ہم عدالتو ں کا رخ کرتے ہیں، کبھی دانشوروں کیطرف دیکھتے ہیں ، کبھی میڈیا سے مدد چاہتے ہیں۔ چند برس قبل جسٹس جواد ایس خواجہ نے نفاذ ارد و کے احکامات جاری کیے تو خوشی کے شادیانے بجائے گئے کہ اردو کو اسکا صحیح مقام مل گیا۔ وزارت تعلیم نے بھی عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میں تعلیمی اداروں میں نفاذ اردو کے احکامات جاری کر دئیے۔ مگر ہوا کیا۔ آج تعلیمی اداروں میں کسی کو یاد بھی نہیں کہ نفاذ اردو کے لئے کوئی احکامات جاری ہوئے تھے۔ تعلیمی نظام پرانی روش پر چل رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ عدالتی کارروائی بھی انگریزی زبان میں ہوتی ہے۔ مقدمات کے فیصلے انگریزی میں سنائے اور لکھوائے جاتے ہیں۔ کم از کم شعبہ تعلیم کیلئے یہ معاملہ ہمیشہ کیلئے حل ہو جانا چاہیے۔ وفاق اور صوبوں کی متعلقہ وزارتیں مل بیٹھ کر ذریعہ تعلیم کے باب میں کوئی متفقہ فیصلہ کر لیں تو یہ معاملہ سلجھایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح یکساں نظام تعلیم کا سیاسی نعرہ ہم برسوں سے سنتے آ رہے ہیں۔ ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ ایک غیر حقیقی اورنا قابل عمل دعویٰ ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کے مختلف دھارے موجود ہیں۔ ایک طرف دینی مدارس ہیں ، دوسری طرف روایتی تعلیمی نظام ہے۔ سرکاری ا ور نجی تعلیمی ادارے کئی اقسام اور درجات میں بٹے ہوئے ۔ بہت اچھا ہوتااگرسطحی دعوئوں کے بجائے قومی سطح پر کوئی پالیسی وضع کر لی جاتی تو صورتحال میں بہتری لائی جا سکتی تھی۔جلد بازی میں کی گئی اٹھارویں آئینی ترمیم کے مضمرات بھی اکثر زیر بحث رہتے ہیں۔ اسی تناظر میں اب مقتدر حلقوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ کسی طرح وفاق اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم پر اتفاق رائے قائم ہو جائے۔یہ کوشش بھی جاری ہے کہ تمام صوبوں میں بنیادی تعلیمی نصاب کا مواد (contents) یکسانیت کے حامل ہوسکیں۔
ان تمام مسائل کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ تعلیمی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی، جلد بازی کا شکارہے۔ اب بھی صورتحال مختلف نہیں۔ گزشتہ دنوںجامعات میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کا ایک فیصلہ اساتذہ کیلئے اضطراب کا باعث رہا۔ خبر تھی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن بہت سے تحقیقی جریدوں کو بند کرنے کے احکامات جاری کرنے والا ہے۔ اس حوالے سےکمیشن کا ایک پرانا نوٹیفکیشن بھی گردش کرتا رہا۔ اس امکانی فیصلے کا جواز یہ تھا کہ کمیشن چاہتا ہے کہ جامعات میں ہونے والی غیر معیاری تحقیق کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری جامعات میں غیر معیاری تحقیق کا رجحان جڑ پکڑ چکا ہے۔ اسکی وجہ یہ کہ ہمارا اعلیٰ تعلیمی نظام اور پالیسیاں ہی جامعات کے اساتذہ کو تحقیقی مقالے شائع کرنے کی اندھی دوڑ میں دھکیل رکھا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے اور پھر اسکے مطابق کوئی حکمت عملی وضع کر کے فیصلے کیے جائیں۔ جلدبازی میں کیے گئے ایسے فیصلے منفی نتائج کے حامل ہونگے۔ پنجاب حکومت کا ایک اور فیصلہ جامعات کے اساتذہ میں تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ خبر یہ ہے کہ جامعات کے وائس چانسلرز کے لئے پی ایچ ڈی اور تحقیقی مقالوں کی شرط ختم کی جا رہی ہے۔مشکل یہ ہے کوئی ایک صوبہ دیگر صوبوں سے ہٹ کر کوئی پالیسی کس طرح سے وضع کر سکتا ہے۔ اس معاملے پر تفصیلی بات پھر سہی مگر فی الحال تو یہی لگتا ہے کہ یہ معاملہ پھر سے عدالت میں جائے گا۔ اور صوبے کی جامعات جو کئی ماہ سے مستقل وائس چانسلرز سے محروم ہیں، ان کی یہ محرومی مزید طول اختیار کرے گی۔

تازہ ترین