• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تو کیا ایک اور فیصلہ ہما ری سیاسی، عدالتی تاریخ میں متنازع بن گیا ہے؟ سپریم کورٹ ملک کی وہ عدالت ہے جس کے فیصلہ کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہو سکتی۔ دنیا کے ہر ملک میں ایک اعلیٰ ترین عدالت ہوتی ہے جو اپنی ماتحت عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کرتی ہے، اور بالآخر کسی معاملہ میں ایک حتمی رائے دیتی ہے۔ یوں نہ ہو تو کوئی بھی مسئلہ کبھی حل نہیں ہوسکے گا۔ یوں تو ہر فیصلہ پر دو رائے ہوتی ہیں، ایک جیتنے والے کی اور دوسری ہارنے والے کی۔ جیتنے والا خوش ہوتا ہے، ہارنے والا ناراض۔ ہماری عدالتی تاریخ میں ایسے متعدد فیصلے ہیں جن پر طویل عرصہ تک بحث مباحثہ ہوتا رہا، اکثرانصاف کے اصولوں کے مطابق، اور کبھی کبھی سیاسی وجوہات کے باعث۔ یوں بھی ہوا کہ فیصلے کے بعد ہونیوالے بعض افسوسناک واقعات کی روشنی میں اعلیٰ عدالت کے فیصلوں کو پرکھا گیا اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
مختار مسعود نے لکھا کہ ایک دوست نے ان سے کہا کہ علی گڑھ کے بارے میں نئی نسل کو آگاہ کریں، یوں ان کی کتاب، حرف شوق، تخلیق ہوئی، جس میں خاصی تفصیل سے علی گڑھ کا اور وہاں پڑھانے اور پڑھنے والوں کا تذکرہ ہے۔ہماری نئی نسل اعلیٰ عدالتوں کے بہت سے فیصلوں سے آگاہ نہیں ہے۔ ساری تفصیلات تو دسترس میں نہیں، مگر چند ایک اہم، اور بوجوہ متنازع، فیصلوں پر بات ہو سکتی ہے۔ اس طرح کچھ تاریخی واقعات اور ان کا پسِ منظر بھی آجائے گا، اور ساتھ ہی بہت سے لوگوں کے جمہوریت کے حق میںاور اس کے خلاف کردار پر بھی کچھ روشنی شاید پڑجائے۔
جسٹس محمد منیر کا نام شاید آپ نے سنا ہو۔ جب بھی ملکی سیاست پر بحث ہوتی ہے ان کا تذکرہ لازمی ہوتا ہے۔ ان کے دو فیصلوںکے اثرات بعد میں پورے ملک پر پڑے۔ دونوں ہی متنازع تھے، اور اب تک ہیں۔ ان کا پہلا فیصلہ 1954 میں آیا۔ اس وقت کے بیمار اور فالج زدہ گورنر جنرل نے آئین ساز اسمبلی توڑدی تھی۔ اس حکم کے خلاف، اسپیکرمولوی تمیزالدین سندھ کے چیف (ہائی)کورٹ میں گئے۔ عدالت نے غلام محمد کے احکامات مسترد کر دئیے اور آئین ساز اسمبلی کی بحالی کا حکم دیا۔ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف فیڈرل (سپریم) کورٹ میں اپیل دائر کی۔ وہاں چیف جسٹس،جسٹس منیر کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا۔ انہوں نے غلام محمد کے فیصلے کو درست قرار دیا، اور آئین ساز اسمبلی کی معطلی برقرار رکھی۔ اس طرح پہلی بار ملکی سیاست میں ’نظریۂ ضرورت‘ متعارف کرایا گیا۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ ملک کی اکثریت کو پسند نہیں آیا۔ مولوی تمیزالدین کا تعلق مشرقی پاکستان (مرحوم) سے تھا۔ اس فیصلے نے وہ بیج بوئے جو بعد میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوئے۔ جسٹس منیر اس وقت بھی چیف جسٹس تھے جب 1956 کا آئین منسوخ کرکے 1958میں ملک میں پہلا مارشل لالگایا گیا۔ مارشل لا تو اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے لگایا، مگر اصل میں تو یہ جنر ل ایوب خان تھے۔ انہوں نے کوئی بیس دن بعد انجیر کا پتہ بھی ہٹادیا، اسکندر مرزا کو چلتا کیااور خود صدر بن گئے۔ اس مارشل لا کے خلاف بھی مقدمہ جسٹس منیر کے سامنے پیش ہوا، اور انہوں نے ایک بار پھر نظریۂ ضرورت کے مطابق فیصلہ دیا اور کہا کہ ’کامیاب انقلاب یا ایک کامیاب فوجی قبضہ coup d'etat، کو بین الاقوامی طور پر آئین تبدیل کرنے کا درست طریقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔‘ یہ پاکستان کی آئینی تاریخ میں ڈوسو مقدمہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ نے جنرل ایوب خان کے مارشل لا کو درست قرار دیدیا۔ بعد میں جسٹس منیر پر بہت تنقید ہوئی، آج تک ہوتی ہے، اور انہوں نے خود بھی اپنی غلطی کا اعتراف کیا، مگر اپنے فیصلے کی توجیح بھی کی۔ مارشل لا ایسے وقت لگایا گیا تھا جب اگلے سال جنوری میں عام انتخابات ہونے والے تھے۔
جنرل ایوب کا مارشل لا کوئی گیارہ برس چلا، اور اس عرصہ میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں دوریاں مزید بڑھیں۔ ایوب خان کے مارشل لا کا ورثہ 1969میں جنرل یحییٰ خان کو منتقل ہو گیا۔ اسی دور میں ملک کے دونوں صوبوں میں’ ایک آدمی ایک ووٹ‘ کی بنیاد پر انتخابات ہوئے، کتنے شفّاف تھے یہ ایک الگ بحث ہے۔ تاہم اقتدار اکثریتی جماعت کو نہیں دیا گیا۔ دوریاں اور بڑھیں، معاملات اور خراب ہوئے، فوجی کارروائی ہوئی، مشرقی پاکستان میں بھارت کی مداخلت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی جو 1971 میں پاکستان کی شکست اور بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔ یحییٰ خان کو حکومت سے الگ کردیا گیا، اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کردیا گیا، وہ سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ ان کے دور میں متعدد لوگوں کو گرفتار اور نظربند کیا گیا، ان میں سے ایک ملک غلام جیلانی صاحب تھے، عاصمہ (جہانگیر) جیلانی کے والد۔ انہوں نے مارشل لاکو چیلنج کیا اور جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے مارشل لا کو غیر آئینی، اور یحییٰ خان کو غاصب قرار دیدیا۔ عدالت عظمیٰ نے جسٹس منیر کے نظریۂ ضرورت کو بھی مسترد کردیا اور یوں ایوب خان کا مارشل لا بھی غیر قانونی قرار پایا۔ بھٹو نے عدالت کے اس فیصلے سے ذرا پہلے مارشل لا ہٹانے کا اعلان کردیا تھا، حالانکہ ان کے پاس مارشل لاجاری رکھنے کی حمایت میں قومی اسمبلی کے کوئی 104 ارکان کی تحریری تائید موجود تھی۔ مگر انہیں علم تھا کہ عدالتی فیصلہ کیا آنے والا ہے۔
مشرقی پاکستان کی جدائی کے بعد خیال تھا کہ اب فوج کبھی مارشل لا نہیں لگائے گی۔ مگر یہ اندازے غلط ثابت ہوئے۔ 1977 کے انتخابات میں پی پی پی حکومت کی دھاندلی کے بعد، پاکستان قومی اتحاد کی تحریک چلی یا چلوائی گئی۔ پورے ملک میں ابتری پھیلی اور جنرل ضیا الحق نے 5 جولائی کو مارشل لا لگا دیا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ان کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا اور ان پر نواب محمد احمد ( پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری کے والد محترم) کے قتل کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے اسے اور مارشل لا کو عدالت میں چیلنج کیا۔ یکم نومبر 1977 کو، سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں مکمل بنچ نے ایک بار پھر مارشل لاکو جائز قرار دیا اور کہا کہ نظریۂ ضرورت اور قوم کے عظیم تر مفاد میں، فوج نے جو ماورائے آئین اقدامات کئے ہیں وہ درست ہیں۔ عدالت نے فوجی سربراہ کو تمام آئینی اور قانونی اقدامات کرنے سمیت قانون سازی کے اختیارات بھی تفویض کردئیے، جو مانگے بھی نہیں گئے تھے۔ جسٹس وحیدالدین احمد، جسٹس دوراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم اور صفدر شاہ نے چیف جسٹس کی رائے سے اتفاق کیا۔ جبکہ جسٹس محمد افضل چیمہ، جسٹس محمد اکرام، جسٹس قیصر خان، اور جسٹس نسیم حسن شاہ نے، چیف جسٹس کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے الگ الگ مختصر فیصلے تحریر کئے۔
جنرل ضیا ء الحق کا مارشل لا بھی گیارہ سال ان کے 1988 میں ایک فضائی حادثے میں ہلاکت کے وقت تک چلا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی مدد سے آئین میں جو چاہا ترمیم کی۔ ایک غیر جماعتی مجلسِ شوریٰ بنائی۔ محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا، مگر وہ بھی جنرل کو پسند نہیں آئے اور 28 مئی،1988 کو انہیں آئین کی شق 58-2(b) کے تحت برطرف کردیا گیا۔ جنرل کے اس فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں گئی۔ عدالت نے فیصلہ تو جنرل ضیاء کے خلاف دیا مگر حکومت بحال کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ نئے انتخابات ہونے والے ہیں اس لئے عوام ہی بہتر جج ہیں۔ جنرل ضیاء کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں کو اپنی مدت مکمل نہیں کرنے دی گئی۔ آئین کی دفعہ 58-2(b)کے تحت بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی دو دو حکومتوں کر برطرف کیا گیا، اور صرف ایک بار سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت بحال کی، مگر فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ نے مداخلت کی اور نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان، دونوں کو جانا پڑا۔
آئین میں ترمیم کا اختیار ایک فوجی سربراہ کو دینے کے 23 برس بعد، ایک بار پھر، سپریم کورٹ نے اسی فیصلے کا ا عا دہ کیا۔ اس بار حکومت پر قبضہ کرنے والے جنرل پرویز مشرف تھے، اور حکومت نواز شریف کی برطرف کی گئی تھی۔ اس وقت میں نے انگریزی ماہنامے ہیرالڈ میں ایک مضمون لکھا تھا : ’سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر کسی کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی، یہی فیصلہ متوقع تھا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ سپریم کورٹ نے حکومت پر قابض کسی فوجی حکمران کے خلاف کبھی فیصلہ نہیں دیا۔ یحییٰ خان کے مارشل لا کے خلاف بھی فیصلہ اس وقت آیا تھا جب سابق فوجی جنرل کو اقتدار سے ہٹادیا گیا تھا اور وہ نظربند تھے۔‘
جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا نہیں لگایا۔ انہوں نے بندوق کے زور پر حکومت پر قبضہ کیا، اور چیف ایگزیکٹو بن گئے۔ اس قبضے کے خلاف سید ظفر علی شاہ نے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ مگر اس سے پہلے، جنرل مشرف عبوری آئین کے تحت حلف نہ اٹھانے والے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی اور بہت سے ججوں کو فارغ کر چکے تھے۔ نئے چیف جسٹس ارشاد حسن خان، اور پورے بنچ نے ایک بار پھر نظریۂ ضرورت کے مطابق فیصلہ کیا، جنرل مشرف کی کارروائی کو درست قرار دیا اور ساتھ ہی، مشرف کو وہ تمام اختیارات بھی دئیے جو اس سے پہلے سپریم کورٹ جنرل ضیا کو دے چکی تھی۔ فی الحقیقت 12مئی،2000 کو دیا گیا فیصلہ، چند ایک الفاظ کے سوا وہی تھا جو نصرت بھٹو کیس میں چیف جسٹس ایس انوارالحق نے دیا تھا۔ شکایت کرنیوالے کی درخواست مسترد ہوئی اور اقتدار پر قابض حکمران کو بن مانگے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیدیا گیا۔ مشرف کو گئے اب ایک دہائی ہونیوالی ہے۔ آئین میںسے 58-2(b)بھی نکال دی گئی، مگر اب بھی یہ ممکن ہو سکا کہ ایک منتخب وزیراعظم کو نا اہل قرار دیکر فارغ کردیا جائے۔ اس فیصلے کے حامی آج بھی ماضی ہی کی طرح اقلیت میں ہیں۔ انصاف ہوا ہے یا نہیں، ملک کی آئینی، عدالتی تاریخ میںشاید ایک اور متنازع فیصلے کا اضافہ تو ہوگیا۔

تازہ ترین