• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کونی چی وا کہہ کر میرے سامنے موجود جاپانی بزرگ آدھے سے زیادہ جھک چکے تھے یہ جاپان کے روزمرہ آداب کا حصہ ہے جس میں صبح ہونے والی ملاقات میں او ہائی او گزائی مس OhaiOGuzaimasuمطلب صبح کا سلام کہہ کر رکوع کی حالت تک جھک کر سامنے والے کو خوش آمدید کیا جاتا ہے جبکہ اسی طرح دوپہر میں ہونے والی ملاقات میں کونی چی وا کہہ کر رکوع کی حالت تک جھک کر خوش آمدید کہا جاتا ہے جبکہ شام میں ہونے والی ملاقات میں کمباوا Kumbawaکہہ کر جھک کر خوش آمدید کہا جاتا ہے، جاپانی قوم اپنی ثقافت میں انتہائی تہذیب کا مظاہرہ کرتی ہے۔ میں اس وقت اپنے پاکستانی دوست کے جاپانی سسر سے ملاقات کے لئے جاپان کے صنعتی شہر اوساکا میں موجود تھا، اوساکا جاپان کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے جبکہ ٹوکیو سے تقریباً چار سو کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے، ٹوکیو سے براستہ ہوائی جہاز اور بلٹ ٹرین یہاں بآسانی پہنچا جاسکتا ہے، میرے سامنے موجود بزرگ کی عمر پچاسی برس کے لگ بھگ ہوگی لیکن وہ کافی چاق و چوبند دکھائی دے رہے تھے، جاپانی بزرگ کا نام یاس اوزاوا Yas Ozawa تھا انہوں نے جاپان پر ہونے والے تاریخ کے بدترین ایٹمی حملے کو نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ ان خو ش نصیب لوگوں میں سے بھی تھے جو ہیروشیما میں ہوتے ہوئے بھی اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے تھے،اوساکا شہر کے مغرب میں واقع جاپان کے پرانے انداز میں تعمیر ہونے والا یہ مکان انتہائی بہترین حالت میں موجود تھا، ہمیں جس کمرے میں بٹھایا گیا تھا وہ تاتا می Tatamiسے مزین تھا تاتامی کو پاکستان میں موجو د چٹائی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، جاپان میں تاتامی کو انتہائی اہمیت حاصل ہے جو انھیں ان کے ماضی اور کلچر کی یاد دلاتی ہے ہر گھر میں ایک کمرہ تاتامی سے ضرور مزین کیا جاتا ہے جہاں گھر کے افراد بیٹھ کر چائے یا قہوہ نوش کرتے ہیں۔ہم بھی اس کمرے میں بیٹھ چکے تھے،ابتدائی تعارف کے بعد میں نے جاپانی بزرگ یا س اوزاوا کی شخصیت کا جائزہ لیا،تازہ تازہ شیو،انتہائی سلیقے سے بنے ہوئے بال، چہرے پر جھریاں موجود تھیں تاہم ان کی شخصیت بارعب اور رکھ رکھائو والی تھی، ہمارے سامنے جاپانی گرین ٹی جسے أوچا بھی کہا جاتا ہے رکھ دیا گیا، کچھ دیر خاموشی کے بعد میں نے جاپانی بزرگ سے دوسری جنگ عظیم کے دوران تاریخ انسانیت پر ہونے والے بدترین امریکی ایٹمی حملے کے حوالے سے ان کی یادداشتوں کے بارے میں دریافت کیا، ایک لمحے کے لئے ان کی آنکھوں میں ایک نمی سی بھی نظر آئی،ایسا محسوس ہوا کہ بزرگ اب سے بہتر برس قبل ہیروشیما میں موجود تھے، چند لمحے توقف کے بعد گویا ہوئے، وہ پیر چھ اگست 1945کا دن تھا، میری عمر اس وقت تیرہ برس ہوگی، مجھ سمیت ہیروشیما کے عوام کو یہ تو معلوم تھا کہ دوسری جنگ عظیم ہورہی ہے اور جاپان بھی اس جنگ میں شریک ہے لیکن جاپانی عوام کے روزمرہ کے معمولات پوری طرح جاری تھے، بچے اسکول جارہے تھے تو بڑے اپنے کاروبار اور ملازمتوں میں مصروف تھے تو خواتین گھر کے کاموں میں، کہیں بھی یہ احساس نہیں تھا کہ کچھ ایسا ہونے والا ہے جو دنیا کی تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا، بزرگ ایک لمحے کے توقف کے بعد ایک بار پھر گویا ہوئے وہ بولے کہ ہمارے ہاں چھ بجے صبح ہوجایا کرتی تھی جبکہ والدہ شاید اس سے بھی قبل اٹھاکرتی تھیں، اس روز بھی سب اپنے معمول کے مطابق اٹھے والد صاحب تیار ہوکر ساڑھے سات بجے دفتر کے لئے روانہ ہو گئے، میں اپنے چھوٹے بھائی کے ہمراہ اسکول کے لئے چلاگیا جو گھر سے دس پندرہ منٹ کی مسافت پر تھا،اس دن گھر سے اسکول جاتے وقت وہ پندرہ منٹ بہت ہی اچھے گزرے تھے میں اپنے دوستوں اور چھوٹے بھائی کے ساتھ اسکول کے راستے میں تھا ہمارا معمول تھا کہ راستے میں کوئی کچرا نظر آجائے تو تمام دوست کچرے کو اٹھا کر کوڑے دان میں پھینکنا اپنا فرض سمجھتے تھے، راستے میں لگی کیاریوں سے کچھ خوشبو دار پھول جمع کرکے اپنے اساتذہ کو بطور تحفہ بھی دیا کرتے، ہم تمام دوست اپنے شہر ہیروشیما کی خوبصورتی دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے، اس روز بھی آٹھ بجے سے قبل ہم اسکول پہنچ کر اپنی اپنی کلاسوں میں بیٹھ گئے تھے کسی کوکچھ نہیں معلوم تھا کہ اب سے پندرہ منٹ بعد ہیروشیما پر کون سی قیامت ٹوٹنے والی ہے،جنگ کے حوالے سے صبح صبح اساتذہ کرام کلاسوں میں آکر جنگ میں جاپانی افواج کی بہادری کے کارناموں اور فتح کی خبریں سنایا کرتے تھے اور تمام بچے اپنی افواج کی کامیابی پر دل ہی دل میں خوش بھی ہواکرتے تھے، اس روز بھی ہماری کلاس میں استاد جنگ کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال سے بچوں کو آگاہ کررہے تھے اور اسی دوران اتنا شدید دھماکہ ہوگیا کہ اس دھماکے کی گونج کو الفاظ میں بیان کرنا کسی کے لئے بھی شاید ممکن نہ ہو،اسکول کی کھڑکیوں کے شیشے کرچی کرچی ہوچکے تھے دھماکے سے اسکول کی عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچا تھابچے زخمی حالت میں زمین پر گرے ہوئے تھے استاد جو سامنے کھڑے ہوکر پڑھا رہے تھے ان کے سر پر بھی کچھ ایسا لگا تھا کہ وہ خون میں لت پت تھے، اسکول کے باہر کالے بادلوں کا شدید دھواں موجود تھا کچھ نظر نہیں آرہا تھا جبکہ انتہائی شدید گرم ہوائیں ہمیں جھلسا رہی تھیں،اور وقت کے ساتھ ساتھ کالا دھواں بڑھتا جارہا تھا،کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہوگیا ہے شاید ہمارا اسکول دھماکے کی جگہ سے کچھ دور واقع تھا اس لئے ہم میں سے کچھ بچوں کی زندگی بچالی گئی تھی،کئی گھنٹے بے ہوشی میں گزارنے کے بعد جب آنکھ کھلی تو خود کو تاحال اسی کلاس میں زخمی وہلاک ہونے والے بچوں کے درمیان ہی پایا، کوئی امدادی ٹیم ہم تک نہیں پہنچ پائی تھی،میں بھی ہلنے جلنے سے قاصر تھا مجھے اپنا بھائی، اپنی والدہ اور والد کی بہت یاد ستارہی تھی نہ جانے ان پر کیا گزری ہوگی، مزید کئی گھنٹوں بعد امدادی ٹیم ہم تک پہنچی، زخمی بچوں کو طبی امداد کے لئے شہر سے دور اسپتالوں میں منتقل کیا جارہا تھا، شہر کی تباہی دیکھی نہیں جارہی تھی،عمارتیں کھنڈر بن چکی تھیں، پورا شہر جل رہا تھا، درجہ حرارت انتہائی زیادہ ہوچکا تھا ایسا لگ رہا تھا کسی نے جلتے چولہے پر ڈال دیا ہو،لاشیں جل چکی تھیں،گاڑیاں اورعمارتیں جل چکی تھیں،کچھ بھی بچا ہوا نظر نہیں آرہا تھا،گلستان قبرستان کا منظر پیش کررہا تھا، کئی دن اسپتال میں گزارے چھوٹا بھائی اور والد ایٹمی حملے میں دنیا سے رخصت ہوچکے تھے والدہ سے زخمی حالت میں ملاقات ہوئی، بزرگ انتہائی صدمے میں اپنی آپ بیتی سنارہے تھے لیکن میں نے محسوس کیا کہ مزید تفصیلات ان کے لئے کسی گہری تکلیف کا سبب بن سکتی ہے لہٰذا میں نے وہیں پر بات ختم کی اور ان کا شکریہ ادا کیاسبق یہ ہے کہ ایٹم بم پر فخر کرنے والوں کو ایٹم بم کے نقصانات کا بھی خیال ہونا چاہیے جس کے ثمرات انسانی نسلوں کو بھگتنا پڑسکتے ہیں۔

تازہ ترین