• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں گزشتہ اتوار کو سندھ مارچ ہوا جس میں کراچی سمیت سندھ کے کونے کونے سے ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ کس نے دیکھا؟ تونے میں نے سب نے دیکھا۔ نہیں دیکھا تو اس میڈیا کے حصے نے نہیں دیکھا جسے نام نہاد قومی میڈیا کہا جاتا ہے۔
یہ مارچ سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے لال جھنڈے اور بینر تلے صوبہ سندھ کے دارالحکومت میں ہوا جس میں ہزاروں مرد بچے اور عورتیں، اور ایسی بھی عورتیں جنہوں نے چھوٹے بچے اپنی کمر پر اٹھائے ہوئے تھے، کئی میل پیدل چل کر پہنچے۔ یہ لوگ جو صرف ایک ہی نعرہ لگا رہے تھے ’’نعرئہ سندھ نعرئہ سید جئے سندھ جئے سندھ، جی ایم سید جی ایم سید‘‘ اصل میں کراچی کے راستوں اور شاہراہوں پر پاکستان بچانے کو نکلے ہوئے تھے۔ یہ ہزاروں سندھی جو کہ کسی ٹی وی چینل یا اخبار کی ریٹنگ تو نہیں بڑھا سکتے تھے انکا تعلق صرف ایک جماعت سے نہیں شاید مختلف جماعتوں سے تھا وہ سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے تین نکاتی ایجنڈے پر جمع ہوئے تھے، حکومتی کرپشن، دہشت گردی، اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف سندھ مارچ۔ کیا کراچی میں سندھ مارچ منظم کرنے والی سندھ یونائٹیڈ پارٹی (ایس یو پی) سندھ میں گزشتہ دہائی بھر سے صوبے میں حکومت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی زرداری کا سندھی عوام یا سندھ میں بسنے والے لوگوں کیلئے نعم البدل پارٹی کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہو گی؟ یہ کہنا تو وقت سے پہلے کی بات ہوگی لیکن ایس یو پی یا اسکی نوجوان یا سابق نوجوان قیادت نے سندھ میں حکمران پارٹی پی پی پی زی اور اسکی طرز حکمرانی والے سیاسی پانیوں کے جوہڑ میں بڑا پتھر پھینک کر لہریں ضرور پیدا کی ہیں۔
اس مارچ نے یہ بھی تاریخی ثبوت بخشا ہے کہ سندھ کے لوگ پی پی پی کے علاوہ بھی اکٹھے ہو سکتے ہیں کم از کم نکات پر۔
سندھ یونائٹیڈ پارٹی (ایس یو پی) سندھ کی سیاست میں پارلیمانی سیاست کا ایجنڈا لیے ہوئے ہے اور جس کی قیادت جدید سندھی قوم پرستی کے بانی اور برصغیر کے معتبر سیاستدان (کبھی منجھے ہوئے پارلیمنٹرین) جی ایم سید کے پوتے اور سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر جلال محمود شاہ اور اسکے نوجوان بھائی سید زین شاہ اور انکے پرانے ساتھی سید غلام شاہ نے قائم کی ہے۔ لیکن اس پارٹی کو موروثی اس لیے بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ایک تو یہ پارٹی پاکستان کی موجودہ سالم جغرافیائی حدود اور آئین کے اندر رہ کر سیاست کرنے نکلی ہے اگرچہ کہ اس میں پچاس فی صد پارٹی کیڈر جئے سندھ تحریک کے سابق کارکنوں کا شامل ہے۔ اس پارٹی کا نام نیا اس لیے نہیں کہ اس نام کی پارٹی سندھ میں پون صدی قبل جی ایم سید دیگر رہنمائوں کے ساتھ ملکر قائم کر چکے تھے۔ دیگر جو پارٹیاں جی ایم سید نے پاکستان کی جغرافیائی اور سیاسی سالمیت کو مانتے ہوئے قائم کرنے میں حصہ لیا تھا ان میں میاں افتخار الدین اور خان عبد الغفار خان و خان عبدالصمد خان کے ساتھ آزاد پاکستان پارٹی اور اس سے بہت قبل پیپلزپارٹی۔ لیکن ان تمام پارٹیوں کا مقصد پاکستان کی پسی ہوئی قومیتوں کی بات کرنا تھا۔تو ایس یو پی بھی ایک طرح سے سندھ میں اسی کا تاریخی تسلسل ہے۔
لیکن جو تاریخی تسلسل کے حوالے سے اس مارچ میں بات تھی وہ سید زین شاہ کا سندھ مارچ کے جلسے سے فی البدیہہ خطاب۔ اس خطاب کا متن اور لب لباب کوئی نئی بات نہیں تھا لیکن انتہائی اہم ضرور تھا۔ تاریخی تسلسل، میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جی ایم سید سے لیکر ولی خان تک اور غوث بخش بزنجو اور عطااللہ مینگل سے لیکر اختر مینگل تک یا رسول بخش پلیجو تک یہی وہ تقریریں ہیں جو یہ رہنما پاکستان کو مستقل مفاد پرست حکمران ٹولوں اور انکی پالیسیوں سے بچانے کو کرتے رہے تھے۔ لیکن انکی نہ سنی گئی یہاں تک کہ ملک بھی مفاد پرست اقتدار ی مافیائوں نے توڑ ڈالا۔
میں نے گزشتہ شب ٹیلیفون پر سید زین شاہ سے پوچھا کہ آخر اس سندھ مارچ ریلی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آخر ان کی تقریر مندرجہ بالا زعما سے کیسے مختلف تھی اور کیسے مختلف نتائج کی توقعات وہ رکھتے ہیں۔ زین شاہ کا کہنا تھا کہ اس وقت جو ملک کو انتہائی درپیش مسائل ہیں ان میں کرپشن، دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی یہ تین ایسے جلتے ہوئے ایشوز ہیں جو ملک کو نہ فقط اندرون اور بیرون بدنام کیے ہوئے بلکہ ان سے ملکی سلامتی بھی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت کے فوج کے سربراہ یعنی جنرل پرویز مشرف کو ہی اس کا ذمہ دار سمجھیں گے کہ جس نے این آر او کر کے زرداری کو صدارت کے منصب پر لا کر بٹھایا تھا جس کے خلاف کرپشن مبینہ ثبوتوں کے ساتھ ثابت تھی۔ جس کا خمیازہ بقول ان کے کہ سندھ اب تک بھگت رہا ہے۔ یہ وہ زین شاہ کہہ رہے تھے جو نوابشاہ میں زرداری کے پڑوسی رہے ہیں اور جن کے بڑوں کے آپس میں تعلقات رہے ہیں لیکن ان کی تقریر کا جملہ مشہور ہوا کہ ایک پڑوسی کے ناتے وہ ان کے علاقے میں ہضم کیے ہوئے بار دانے تو معاف کر سکتے ہیں لیکن پورے سندھ میں ہونے والی موجودہ حکومت کی بدعنوانی نہیں۔ زین شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ میں بدعنوانی نے ایسا سیاسی کلچر جنم دیا ہے جس میں تہذیب اور شرافت کا نام تک نہیں ہے جو وڈیرانہ ہے اور سندھ میں ماضی کے برعکس اب ہر پانچ دس کوس پر ایک وڈیرہ اور سردار بیٹھا ہے اور جن کی سیاست ایجنسیوں کی مرہون منت ہے۔
اگست کا مہینہ سندھ میں خوف اور دہشت کا مہینہ ثابت ہوا جب روزانہ کی بنیاد پر سندھ کے شہروں اور گائوں گوٹھوں سے بڑے پیمانے پر سندھی قوم پرست سیاست کرنے والے کارکنوں اور ہمدردوں کو ریاستی سطح پر غائب کردیا گیا.۔ یہاںتک کہ ان گمشدگیوں پر آواز اٹھانے والوں کو بشمول پر امن سول سوسائٹی کارکن پنہل ساریو سمیت کئی کو، اور کارکنوں کے نہ ملنے پر انکے عزیز و اقارب کو بھی۔ لیکن ان تمام خوف و ہراس کے حالات کے باوجود سندھ مارچ ریلی ہوئی۔ لیکن اس ریلی پر سوال بھی اٹھے ہیں کہ ایسے جبر کے ماحول میں آخر اس ریلی کو اجازت کیونکر دے دی گئی۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی ریلی کو عمران خان کی مبینہ تائید حاصل تھی۔ سازشی تھیوریاں تو سندھ ریلی کے متعلق کئی ہیں لیکن میرے ایک پی پی پی کے سخت جیالے دوست جو بلاول بھٹو کےحالیہ دنوں ہونے والے جلسوں میں چترال اور مانسہرہ تک ہو کر آئے ہیں اور سندھ میں گڑھی خدا بخش ایک زائر کی طرح جاتے ہیں وہ اس ریلی کو ’’مقتدر قوتوں کی حمایت سے‘‘ نکالی گئی کہتے ہیں۔
لیکن زین شاہ نے اسکی تردید کی اور کہا کہ ریلی کی تیاریوں کے دوران انکی پارٹی کے بھی لوگ اٹھائے گئے۔ لیکن انکے مخالفین کہتے ہیں کہ ریلی میں گمشدگیوں کی مذمت تو کی گئی لیکن گمشدگان بشمول پنہل ساریو تک کسی کے نام نہیں لیے گئے۔ میں نے خود نوٹ کیا کہ ایس یو پی کا لیڈر ڈاکٹر انور لغاری جسے نومبر دو ہزار پندرہ میں ضمنی انتخابی مہم کے دوران قتل کردیا گیا تھا ،کا اس ریلی میں کسی مقرر نے نام تک نہیں لیا۔ جب میں نے اسکی وجہ سید زین شاہ سے پوچھی تو اس نے اسے محض ایک اتفاق کہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایس یو پی اپنی ایسی ہزاروں کی ریلی کو ووٹ میں بدل سکتی ہے؟

تازہ ترین