امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان اور خطے کے بارے میں اپنے پہلے خطاب نے ملکی سیاست میں بھونچال برپا کردیا ہے، جہاں ایک طرف ٹرمپ پر جوابی نشتر برسانے کی کوشش کی جارہی ہے وہیں پاکستانی عوام میںامریکہ کے حوالے سے اشتعال پایا جاتا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کسی بھی قسم کا ردِ عمل ظاہر کرنے سے پہلے حقائق کا غیرجانبدارانہ جائزہ لینا چاہئے، پارلیمنٹ کے اراکین عوام کے نمائندے ضرور ہوتے ہیں لیکن ہمارا کردار آگ کو بھڑکانا نہیں بلکہ مصالحانہ ہونا چاہئے، اسی لئے میں نے ضروری سمجھا کہ میں بطور پارلیمنٹیرین اور سرپرستِ اعلیٰ پاکستان ہندوکونسل ٹرمپ کی تقریر کا تجزیہ پیش کروں۔ قیامِ پاکستان کے وقت سرد جنگ زوروں پر تھی اور اس حوالے سے کچھ طبقات پاکستانی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے خطے کے اہم ملک سویت یونین کا دعوت نامہ ٹھکراکر امریکی دورہ کرکے پاکستان کی مغربی بلاک میںشمولیت کی راہ ہموارکی، میں نہایت ادب و احترام سے انکی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ پاکستان کا قیام ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا اور پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے، سویت بلاک مذہب بیزار آمریت پسندممالک پر مشتمل تھا جبکہ امریکہ کی زیرقیادت مغربی بلاک جمہوری اصولوں، مذہبی و شخصی آزادی اور انسانی حقوق کا علمبردار تھا، اس لئے پاکستانی قیادت کا امریکہ سے دوستی کا ہاتھ تھامنا جمہوریت پسندی اور اصولوںکا تقاضا تھا، سویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ نے ثابت کردیا کہ پاکستانی قیادت کا دوراندیشانہ فیصلہ درست تھا اور آج کا جمہوری روس بھی پاکستان سے قریبی تعلقات کا خواہاں ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کا پاکستان کی جانب سے امریکہ کو نقصان پہنچانے کا گِلہ بالکل بے بنیاد ہے کیوں کہ دونوں ممالک کی سفارتی تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات نشیب و فراز کا شکار تو ہوتے رہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پاکستان نے اپنے دیرینہ دوست امریکہ کودانستہ نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہو، سابق سپرپاور روس کے خلاف پشاور کے ہوائی اڈے سے یوٹو جہاز اڑانے کا معاملہ ہو یاچین اور مغرب کے مابین پل کا کردار اداکرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر کو بیجنگ کا دورہ کروانا، پاکستان نے ہمیشہ عالمی امن کے فروغ کی خاطر امریکہ کی حمایت کی ہے۔ ہمسایہ ملک افغانستان نے روزِ اول سے پاکستان مخالف رویہ اپنا رکھا تھا لیکن جب سویت دراندازی کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان نے امریکی سے تعاون کا آغاز کیا جسکے نتیجے میں نہ صرف سویت یونین کی افغانستان سے پسپائی ہوئی بلکہ سویت غاصبانہ قبضے سے متعدد ممالک کو آزادی مل گئی، دوسری طرف عالمی منظرنامے میں دوبلاکوں کے مابین ٹکراؤ کی سیاست کا خاتمہ ممکن بناکر امریکہ کو واحد سپرپاور کا درجہ حاصل ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج پاکستان امریکہ سمیت عالمی برادری کو جس دہشت گردی کے خونی عفریت کا سامنا ہے اسکی بڑی وجہ خود امریکہ کا روس کو شکست دینے کے بعد افغانستان کو تنہا چھوڑ دینا ہے۔ دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہیں چاہے کہیں بھی موجود ہوں اس پر کسی کو بالکل خاموش نہیں رہنا چاہئے، اس حوالے سے حکومت پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ اگر امریکہ کو ایسی ٹھوس اطلاعات ہیں کہ دہشت گردوں نے پاک افغان دشوار سرحدی علاقوں میں ایسی کوئی پناہ گاہ قائم کررکھی ہیں تو اسے پاکستان پر اعتماد کرتے ہوئے معلومات کا تبادلہ کرنا چاہئے، صرف الزام تراشی سے دوطرفہ غلط فہمیوں میں اضافہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن مثبت نتائج کی توقع نہیں کی جاسکتی، اسی طرح امریکہ کی جانب سے ماضی میں ڈرون حملوں، ریمنڈ ڈیوس اورایبٹ آباد آپریشن جیسے واقعات نے باہمی اعتماد کوشدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ پاکستان میں انفرادی سطح پر کچھ غیرریاستی عناصر امریکہ مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں لیکن انہیںریاستی سرپرستی اور عوامی تائیدقطعی حاصل نہیں اور ایسے ناپسندیدہ سماج دشمن عناصر ہر ملک، معاشرے میں پائے جاتے ہیں، خودامریکہ سمیت مغربی معاشروں میںشدت پسنداور جرائم پیشہ عناصر موجود ہیں، شدت پسندی کے واقعات وقتاً فوقتاً منظرعام پر آتے رہتے ہیں لیکن انہیں جواز بناکر کسی ملک کے بارے میں بحیثیت مجموعی رائے قائم کرنا سخت ناانصافی ہے۔یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ امریکی صدر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اہم اتحادی گردانتے ہوئے قربانیوں کا اعتراف کیا ہے، میں اس حوالے سے یہ اضافہ کرنا چاہوں گاکہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نےاس جنگ میں شمولیت کی بھاری قیمت اپنے خون سے ادا کی ہے، اس حوالے سے مختلف شدت پسندوں نے پاکستان کو انتقامی کاروائیوں کے نشانے پر رکھا ہوا ہے، پاکستان کا چپہ چپہ خودکش حملوں میں لہولہان کیاجاچکا ہے، آپریشن ضرب عضب کی کامیابی نے پاکستانیوں کو سکھ کا سانس لینے کے قابل کیا ہے لیکن ستم ظریفی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی ہی دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں اور پاکستانیوں ہی کو دہشت گردی سے منسلک کیا جارہا ہے، میرے خیال میں انفارمیشن کے اس دورمیں ہر ملک اپنی کامیابیوں اور مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی جستجو میں ہے، ہمیں ماننا چاہئے کہ پاکستان عالمی برادری کے سامنے اپنی برانڈنگ صحیح طرح کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے، اس سلسلے میں بڑی خامی پاکستانی سفارتخانوں کی عدم دلچسپی ہے جبکہ اسکے مقابلے میں پاکستان دشمن عناصر سفارتی محاذ پر بھی سرگرم عمل ہیں، ہمیں امریکی کانگریس اور دیگر اہم اداروں میں پاکستان کی لابنگ پر خصوصی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔میری نظر میں مسلمان اکثریتی ملک پاکستان کا امیج تبھی بہتر ہوسکتا ہے جب معاشرے کے تمام طبقات کو قومی ترقی کیلئے یکساں مواقع فراہم ہوں، قابل اور تعلیم یافتہ پاکستانیوں کی اہم عہدوں پر تعنیاتی اور عالمی برادری کے سامنے ملک کی بھرپور نمائندگی ملک دشمنوں کا پروپیگنڈہ زائل کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی عوام ملکی ترقی میں امریکی تعاون بالخصوص یوایس ایڈکے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، مقامی ذرائع ابلاغ میں بھی امریکہ کے بارے میں مثبت رائے پائی جاتی ہے، پاکستانی تارکین وطن کی ایک کثیر تعدادامریکہ میں آباد ہے جبکہ پاکستان میں جاری لاتعداد امریکی ترقیاتی منصوبوں میں پاکستانی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، ان حالات میں ہم سب کوبطور امن کے علمبردار دونوں ممالک کو قریب لانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔حکومت پاکستان اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ ایک پرامن افغانستان خطے بھر کے بہترین مفاد میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ حالیہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد میں کرایا گیا، اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے والے وہی عناصر تھے جو پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کرنے کی آرزو میںعالمی برادری کو گمراہ کررہے ہیں۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا بیان حقیقت پسندانہ ہے کہ پاکستان کو امریکہ کے اعتماد کی ضرورت ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ جہاں ایک طرف پاکستان کے مثبت کردار کا اعتراف کررہے ہیں وہیں کچھ غلط فہمیوں کا بھی شکار لگتے ہیں جن کےازالے کیلئے حکومتِ پاکستان کو امریکی صدر کو دورہ پاکستان کی دعوت دینی چاہئے۔ پاکستان کو ایک طرف دہشت گردوں کے بزدلانہ حملوں اور دوسری طرف افغانستان حکومت کے عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جبکہ عالمی سطح پر پاکستان کے کردار کو یکسر نظرانداز کرکے دہشت گردی سے نتھی کرنانہایت تکلیف دہ امر ہے۔ میں یہ دعویٰ سے کہتا ہوں کہ امریکی صدر اگر پاکستان دشمن لابی کی باتوں کو اہمیت نہ دیں اور پاکستان آکربغیر کسی تعصب کے دیکھیں تو انہیں عالمی برادری میں پاکستان سے زیادہ قریبی دوست ملک اور کوئی نظر نہیں آئے گا جو روز اول سے اصولوں کی بنیاد پر امریکہ سے دوطرفہ مستحکم تعلقات کے فروغ کیلئے کوشاں رہا ہے۔