حکومت پاکستان نے ملک بھر میں عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کی روک تھام اور خاص کر اس سے متاثر ہونے والے سگریٹ نہ پینے والوں کی حفاظت کیلئے وقتا فوقتا قانون سازی کی ہے۔ اس تناظر میں ایک قانون 70 کی دہائی میں بنایا گیا۔ اس کے بعد دوسرا قانون 2002 میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنایا گیا جسے ’’ تمباکو نوشی کی روک تھام اور سگریٹ نہ پینے والوں کی صحت کے تحفظ کا آرڈننس2002 ‘‘ کا نام دیا گیا۔یہ ہر لحاظ سے ایک مکمل قانون ہے ،جسے بنانے کے بعد فوری طورپر نفاذ کیلئے پیش کیا گیا۔اس قانون کے تحت تمام عوامی مقامات اور جگہوں پر تمباکو نوشی پر پابندی ہو گی، جن میں تعلیم، صحت ، کھانے پینے، کھیل ، مطالعے اور تفریح سمیت دیگر مراکز شامل ہیں۔ اس قانون کی خلاف ورزی ایک جرم تصور ہوگا،جس کے مرتکب افراد کیلئے جرمانے اور سزائیں مقرر کردی گئی تھیں۔ دراصل یہ ایک بہت ہی مفید اور اعلیٰ درجے کا قانون ہے، جس کا مقصد ترقیافتہ ممالک کی طرح وطن عزیز میں بھی عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کی روک تھام اور خاص کر اس سے متاثر ہونے والے نان اسموکرز کی صحت کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ خیال رہے کہ تبدیلی کی دعویدار، پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت نے بھی مذکورہ بالا قانون سازی کو مدنظر رکھتے ہوئے عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کی روک تھام کیلئے ایک قانون صوبائی اسمبلی سے پاس کرکے نفاذ کیلئے پیش کیا ۔تاہم دیکھا جائے تو اس وقت صوبے بھر کی طرح صوبائی دارالحکومت پشاور میں بھی اس قانون پر کہیں بھی عمل در آمد ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا اور ایسا لگتا ہے کہ یہ قانون حکومت کی سستی اور غفلت کے باعث ایک گہری کھائی کی نذر ہوگیا ہے۔ بات تو اس انتہا تک پہنچ چکی ہے کہ اب کھلے عام اس قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور سگریٹ نوشی کرنے والے بہت سے افراد کو تو اس قانون کے بارے میں سرے سے پتہ ہی نہیں اور جنہیں اس کا علم ہے، ان کی اکثریت اسے توڑنے کو ایک فیشن سمجھتی ہے۔اسوقت شہر میں یونیورسٹیوں، کالجوں، ریستورانوں ، دفتروں ،بسوں اور ویگنوںسمیت تقریبا تمام عوامی مقامات اور جگہوں پر کھلے عام سگریٹ نوشی کے مناظر دیکھنے کوملتے ہیں، جو کہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد کے ساتھ ساتھ سگریٹ نہ پینے والے حضرات کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرنے کےعلاوہ ماحول کی آلودگی کا باعث بھی بنتا ہے۔ اسی طرح سگریٹ کے دھوئیں میں موجود خطرناک اور زہریلے مادے ماحول کو آلودہ کرنےکے ساتھ ساتھ کئی خطرناک بیماریوں کا سبب بھی بنتے ہیں۔مگر جہاں تک اس قانون پر عمل در آمد کی بات ہے تو بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بھی قابل ذکر اور عملی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔ حالانکہ یہ تو تبدیلی کا نعرہ ساتھ لے کر اقتدار میں آئی تھی لیکن اس تناظر میں ابھی تک کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آرہی جبکہ اس غفلت کی وجہ سے عوامی مقامات پر تمباکو نوشی سے متاثرہو نے والے نان اسموکر حضرات سخت پریشان اور نالاں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس صورتحال کا فوری طور پر نوٹس لے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلے میں ایک جامع اور ٹھوس حکمت عملی اختیار کی جائےاورہنگامی بنیادوں پر اس قانون پر عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ سگریٹ نہ پینے والے افراد مزید متاثر نہ ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ شہر میں ایک صاف ستھرےماحول کا قیام بھی عمل میں لایا جاسکے۔ اس حقیقت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کرسکتا کہ صحت مند عوام ہی صحت معاشرہ تشکیل دیتے ہیں اگر خیبر پختونخوا کی حکومت صحت مند معاشرہ تشکیل دینا چاہتی ہے تو اسے اس باب میں فوری اور موثر اقدامات کرنا ہونگے۔