• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست کروٹیں بدل رہی ہے کل تک ایم کیو ایم کے بانی کا راج پورے سندھ میں مہاجروں پر چلتا تھا ۔اب ایم کیوایم کے کئی نمایاں دھڑے بن گئے ہیں۔بانی ایم کیو ایم کو کنارے لگادیا گیا ہے ۔جنہوں نے منزل نہیں رہبر چاہئے کا نعرہ لگایا،پہلے منزل نہ ملی اور اب رہبر بھی نظروں سے اوجھل ہے۔ ایک دھڑے کو فاروق ستار لیڈ کررہے ہیں، ایک کو مئیر کراچی وسیم اختر نے سنبھالا ہوا ہے تو تیسرا دھڑا مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی گروپ نے سنبھالا ہوا ہے۔مہاجر قومی موومنٹ کو آفاق احمد دیکھ رہے ہیں ۔اگلے الیکشن میں مہاجروں کو نئی سوچ کے ساتھ ووٹ ڈالنے ہونگے۔اس وقت سندھ کی مہاجر آبادی کو ہر ایک نے ٹشو پیپر سمجھ کراستعمال کرکے تنہا کردیا ہے ۔پی پی پی کی حکومت اور میئر کراچی دونوں آپس میں اقتدار کیلئے گتھم گتھا ہیں ۔پورا شہر جو فوج اور رینجرز کی کوششوں سے دہشت گردی سے تو نکل گیا مگر اب وحشت زدہ ہوگیا ہے اُس کو نظر بد کھا رہی ہے۔ کراچی پورے پاکستان کا سب سے خوبصورت ترین شہر تھا ۔آج بد صورت ترین شہر میں تبدیل ہوچکا ہے نہ مرکز اُس کی حالت سنبھالنے کے لئے تیار ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت اس کی بہتری کے لئے میئر کراچی سے تعاون کرنے کے لئے تیار ۔ صرف ٹیکس کی وصولیاتی میں مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتیں لگی ہوئی ہیں۔ حالیہ بارشوں کے بعد پورے شہر کی شاہرائیں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں بعض نشیبی علاقوں میں تو آج بھی پانی کھڑا ہے ۔چھوٹی گاڑیاں ابھی تک پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں ۔انتظامیہ ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتی ہے اگر یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا تو کراچی کے عوام سڑکوں پر نکل سکتے ہیں ۔
سیاست کا ذکر ہورہا تھا تو مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی سپر یم کورٹ نے نظر ثانی اپیل بھی مسترد کردی ہے۔اُن کی صاحبزادی مریم نواز اپنے والد کو معصوم سمجھتی ہیں اور روز ایک نئے بیان سے میڈیا کو گرماتی ہیں ۔حلقہ 120لاہور کے الیکشن کی پوری ذمہ داری سنبھال رہی ہیں ۔گزشتہ دنوں مقامی گرجا میں اپنی بیمار والدہ کیلئے دعا کروانے گئیں تودعائیں کم مانگیں ووٹ زیادہ مانگے جو گرجا کی روایات کے خلاف تھا ۔کہا جاتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد گرجا کے بشپ نے اپنے عیسائی بھائیوں سے معافی مانگی اور آئندہ کے لئے سیاست دانوں کے داخلے پر پابندی بھی لگا دی۔دوسری طرف میاں نواز شریف کے رقیب عمران خان بھی اس الیکشن کونئے معنی پہنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں وہ علاقے کے عوام کو عدلیہ اور فوج سے منسوب کررہے ہیں۔ انہیں ان دونوں معزز اداروں کو ہر گز ملوث نہیں کرنا چاہئے۔ بظاہر وزیراعلیٰ پنجاب کے اچھے کاموں کی وجہ سے میاں نواز شریف صاحب کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے اس الیکشن سے نیا موڑ آسکتا ہے۔ مگر ماڈل ٹائون حادثہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں پڑاکسی وقت بھی طاہرالقادری اس کو اُٹھاکر زندہ کرسکتے ہیں ۔جو شہبازشریف کی بدنامی کا باعث ہوگا ۔سیاست کے ایک اورکردار عمران خان خود گردش میں آنے والے ہیں اُس کا ابھی انہیں میاں نواز شریف کی طرح احساس نہیں ہورہا ایسا لگ رہا ہے سپر یم کورٹ 2معاملوں میں مطمئن نہیں ہے ۔ایک اُن کی اہلیہ کی رقم جو بنی گالہ میں گھر کے سلسلے میں انہیں ملی دوسرا غیر ملکی فنڈنگ مشکوک ہے اگر وہ سپر یم کورٹ کو مطمئن نہ کرسکے تو وہ بھی نااہل ہوسکتے ہیں اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیگی تواس کاگراف نیچے آجائے گا ۔مسلم لیگ ن والے تو میاں نواز شریف کے نااہل ہونے سے ٹو ٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوئے اور پارٹی کو سنبھال گئے مگر پی ٹی آئی نہیں سنبھلے گی ۔اُس کے ناتجربہ کار افراد کی تعداد زیادہ ہے۔سیاست کا چوتھا سرا پی پی پی کے سربراہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری سے جوڑا جارہا ہے کہ اُن پر بھی نزلہ گرسکتا ہے وہ پنجاب میں خاص طور پر اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو کو میدان میں اتارکر اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس لینے کی پوری تیاری کرچکے ہیں ۔ان کے پرانے ساتھی بھی دیگر پارٹیوں میں جاچکے ہیں اور بہت سے تیاریاں کررہے ہیں ان کا مستقبل نئے نوجوان چیئر مین سے خطرے میں پڑچکا ہے اگر پارٹی ٹکٹ نہ ملا تو پھر وہ نئے سرے سے دوسری پارٹی میں سیاست شروع کردیں گے ۔عوام حیران ہیں ایک طرف عمران خان کرپشن کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں مگر جنہیں وہ کرپٹ کہتے تھے آج جوق درجوق یہی کرپٹ سیاست دان جن کے کیس نیب میں کھلے ہوئے ہیں پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں ۔خود عمران خان اپنے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ اس آنے والے الیکشن 2018میں وہ خود تمام امیدواروں کا انٹرویو لے کر ہی ٹکٹیں بانٹیں گے تو جن کا ماضی پہلے ہی سے داغ دار ہے ان کو شامل کرکے کیسے روکیں گے۔
آخر میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی نظریں ان کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ کیا مندرجہ بالاچاروں کردار کے فارغ ہونے کے بعد اس خلاکو پُر کرنے کے لئے چوہدری نثار علی خان جن پر ابھی تک کوئی کرپشن کا الزام نہیں ہے آگے لایا جائے گا یا پھر مسلم لیگ ن میں ٹوٹ پھوٹ کراکر ایک نیا گروپ تشکیل دیاجائے گا تاکہ کرپٹ سیاست دانوں کا راستہ روکا جاسکے ۔فی الحال 2018ء کا الیکشن بہت اہمیت رکھتا ہے اگر فوج اور عدلیہ کی نگرانی میں ہوا تو نتائج مختلف ہوسکتے ہیں ابھی تو مردم شماری پر بحث جاری ہے جس پر 3صوبے غیر مطمئن ہیں فوج نے نگرانی تو کی مگرنتائج مرتب تو مقامی انتظامیہ کرتی ہے۔ اُس نے حسب سابق اس مرتبہ بھی صفائی سے ہاتھ دکھادیا۔نیب اوراحتساب عدالتوں کے فیصلے کے بعد ہی میاں نواز شریف کے مستقبل کا فیصلہ ہوسکے گا۔ جس کو سیاسی زبان میں مائنس 4کہاجارہا ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا فی الحال عوام کو کرکٹ کے میدان میں دھکیل کر سیاست سے توجہ ہٹادی گئی ہے۔

تازہ ترین