میرے جتنے ہندو، سکھ اور بدھسٹ دوست ہیں جب وہ لاہور آتے ہیں۔ کبھی نہیں بھولتے وہ داتا صاحب جانا۔ ہمیشہ کہتے ہیں بڑا سکون ملتا ہے۔ گولڈن ٹمپل ہو کہ داتا صاحب کہ نظام الدینؒ کہ اجمیر شریف، نجانے ان جگہوں میں کیا طلسم ہے کہ انسان کا دعا پڑھ کے اٹھنے کو جی نہیں کرتا ہے مگر وہ کون تھے شقی القلب کہ جنہوں نے عبادت میں مصروف لوگوں کو زندگی سے جدا کردیا۔ دو سو گھرانوں کو سوگوار کردیا۔ اب مجھے رحمن بابا کے مزار پر کیا جانے والا حملہ بھی یادآ رہا ہے۔ ساری محرابیں حتیٰ کہ مزار کا آدھا حصہ برباد ہوگیا تھا۔ اب سب ادیب اسلام آباد اور پشاور کے مل کر رحمن بابا کے مزار پر حاضری دی اور ان مزدوروں کے کام میں ہاتھ بٹایا جو ظاہری طور گرے ہوئے گنبدوں کو سہارا دے رہے تھے۔ لوگ پوچھتے ہیں یہ کون لوگ ہیں جو معرفت کے ان عظیم مفکروں کے مزاروں کو بھی اجاڑنا چاہتے ہیں۔ جن بچوں کو تربیت دی جاتی ہے خود کش دھماکوں کی، ان کو کہا جاتا اور سکھایا جاتا ہے کہ ان علاقوں کی جانب جائو جہاں بہت لوگ ہوں تاکہ نقصان زیادہ ہو اور لوگ حکومت سے متنفر ہوں۔ یہ بچے جن کی عمر 20 سال کے قریب تھی۔ ان کو کیا معلوم کہ داتا صاحب کون ہیں۔ ان کو کیا خبر کہ کشف المحجوب میں کیا اور کیسے برداشت اور محبت کی تلقین کی گئی ہے۔ ان کو کیسے خریدا یا ورغلایا جاتا ہے، اس کا احوال تو خود آئی ایس پی آر کے کرنل ٹیلی ویژن پر بتا چکے ہیں۔
داتا صاحب غزنی سے آئے تھے۔ آج غزنی میں بھی زندگی دو بھر ہے اور لاہور میں داتا صاحب کمپلیکس برے حال میں ہے۔ یہ تو وہ جگہ ہے کہ جہاں سونے کا دروازہ شہنشاہ ایران نے تحفتاً دیا تھا اور ہزاروں بھوکے اور غریب داتا صاحب کے لنگر خانے سے پیٹ بھرتے تھے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ داتا صاحب میں مزار کے پاس جو توشہ خانہ اور صدقے کے پیسوں کے جو بکسے رکھے ہوتے تھے اس میں عقیدت مند روزانہ اتنی دولت ڈالتے تھے کہ لاہور کارپوریشن نہ بھی ہو تو بھی پورے لاہور کا خرچہ اس آمدنی سے چل سکتا تھا۔ میں یہ بات اس لئے کہہ رہی ہوں کہ بیس برس پہلے میں بھی خواتین کی ایک کمیٹی میں شامل تھی جو چڑھائی جانے والی چادروں سے جہیز تیار کرتی تھی اور ہر ماہ کم از کم پچاس لڑکیوں کو جہیز دیا جاتا تھا۔ یہ بھی غور طلب بات ہے کہ اس کمیٹی کی بہت سی ممبران، جاتے وقت، پلائو زردے کی تھالیاں بھر کر اپنے گھروں کی سمت جاتی تھیں۔
داتا صاحب سے عقیدت کا یہ حال تھا کہ لوگ چیک سائن کرکے اس میں رقم بھی نہیں لکھتے تھے مگر خورد برد کرنے والے کہاں نہیں ہوتے ہیں یہ سلسلہ اس وقت سے چل رہا ہے جب سے اوقاف کا محکمہ قائم کیا گیا۔ آخر ان حرکتوں کا ادبار کبھی تو آنا تھا۔
پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ایسے خود کش حملے آج سے کئی برس پہلے، بری امام کے عرس کے موقع سے شروع ہوئے تھے۔ پھر بعد میں پختونخوا کے مختلف علاقوں میں یہ سلسلہ چلا۔ احمر حمزہ شنواری کے مزار پہ حملہ کیا گیا، نوشہرہ میں بہادر بابا کے مزار کو اڑا دیا گیا۔ سوات میں کئی گدی نشینوں کو قتل کیا گیا اور ان کی لاش کو چوک میں لٹکایا گیا۔
دنیا بھر سے جتنے سیاح آتے ہیں۔ وہ جمعرات کو شاہ جمال کے مزار پر پپو سائیں کا ڈھول سننے جاتے ہیں۔ کیا اب وہ بھی ختم کردیا جائے گا۔ بی بی پاک دامن کے مزار پر عورتیں دعائیں مانگنا چھوڑ دیں گی۔ مرحوم پروفیسر اسلم، تاریخ والے بتایا کرتے تھے کہ لاہور کے ہر چوک اور ہر محلے میں ایک پیر کی قبر موجود ہے۔ کچھ لوگوں کو تو ہم نے اپنی زندگی اور یادداشت میں پیر کا درجہ حاصل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ واصف علی واصف، اشفاق احمد کے گھر، ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھے گفتگو کیا کرتے تھے۔ عام آدمی کی طرح جیسے، عام آدمی کی طرح جئے۔ یوسف کامران کی وفات کے بعد، مجھے تسلی دینے ہر روز آیا کرتے تھے۔ ان کی وفات کے سال بھر بعد، سنا اور دیکھا کہ باقاعدہ عرس ہو رہا ہے اور یہ کام روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جب تک یونس ادیب زندہ تھا وہ ساغر صدیقی کا عرس کیا کرتا تھا۔ اس زمانے کا ایک مشہور بدمعاش (اس زمانے میں چند ہی بدمعاش ہوتے تھے) وہ عرس کے موقع پر دیگیں دیسی گھی میں پکوا کر لایا کرتا تھا۔ آج بھی آپ میانی صاحب کے قبرستان میں چلے جائیں جگہ جگہ درگاہیں بنی ملیں گی اور چڑھاوے جس میں چادریں اور دیگیں دونوں شامل ہیں۔ وافر مقدار میں نظر آئیں گی۔ وہ لوگ جن کے پاس پیسہ ہے وہ ان غریب غرباء کو دے دیا کریں کہ جو بچوں سمیت خود کشی کرنے پہ مجبور ہوتے ہیں تو یہ نوبت نہ آئے۔ میں نے تو شاہ لطیف کے مزار پہ یہ بیٹھے مرید کو سو روپے رشوت دے کر، آگے بڑھ کر چادر چڑھانے والی عورتیں بھی دیکھی ہیں۔ بھنگ پی کر دوشالے لئے ہوئے فقیر بھی دیکھے ہیں کہ انہوں نے شاہ حسین کے مزار کے گرد ہالہ کیا ہوا ہوتا ہے۔ یہی حال میں نے بہائوالدین زکریا کے مزار پر دیکھا ہے اور بلھے شاہ کے مزار پر بھی دیکھا ہے ہر چند اس کو آپ ضعیف الاعتقادی بھی کہہ سکتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ لوگو ں کو بے دردی سے مار دیا جائے… داتا کی نگری کو اجاڑنا کسی طور پربھی درست نہیں ہے۔