• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دو ہفتے قبل میں کراچی سے صحافیوں کی ایک ٹیم میں تھرکول پاور پلانٹ کا 50فیصد کام مکمل ہونے پر وہاں وزیر اعلیٰ سندھ کی صدارت میں ہونے والی ایک تقریب کی کوریج کے لئے تھر گیا تھا۔ واپسی پر میں نے تھر میں جو دیکھا اس پر اب تک دو کالم لکھ چکا ہوں۔ آخری کالم میں میں نے تھرکول پروجیکٹ کے ماہرین کے حوالے سے یہ انکشاف کیا تھا کہ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کے دوسرے مرحلے میں اس پاور پلانٹ سے جو بجلی تیار ہو گی وہ پاکستان میں سستی ترین بجلی ہوگی۔ اب تک پانی سے تیار ہونے والی بجلی سستی ہوتی ہے۔ مگر تھر کے کوئلے سے تیار ہونے والی بجلی اس سے بھی سستی ہو گی۔ تھر کول پاور پلانٹ کے ماہرین نے یہ بھی انکشاف کیا کہ تھر میں کوئلے کے اتنے ذخائر ہیں کہ اس سے تیار ہونے والی بجلی سے ہمارے ملک کی بجلی کی ضرورتیں پوری کرنے کے بعد ہندوستان کو بھی بجلی برآمد کر سکتے ہیں۔ ان ہی ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ کوئلے سے تیار ہونے والی بجلی نیشنل گرڈ کے ذریعے سارے ملک کو فراہم کرنے کے لئے تھرپاور پلانٹ سے نیشنل ہائی وے پر مٹیاری کے نزدیک ٹرانسمیشن لائن بھی بچھا دی گئی ہے۔ لہٰذا میں نے یہ نکتہ بھی اپنے پچھلے کالم میں شامل کیا تھا، مگر ایک دن پہلے جب کراچی میں سندھ کے اعلیٰ حکومتی حلقوں سے بات ہوئی تو انہوں نے اس نکتے کی تردید کی اور کہا کہ ابھی تھرپاور پلانٹ سے مٹیاری تک ٹرانسمیشن لائن نہیں بچھائی جا سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانسمیشن لائن اس جگہ تک بچھانے کے لئے فنڈز وفاقی حکومت کو فراہم کرنے ہیں مگر وفاقی حکومت نے ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لئے مطلوبہ رقم فراہم نہیں کی اور سارے پروجیکٹ میں مرکزی حکومت کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔ انہوں نے از راہ مذاق کہا کہ پتہ نہیں ان کی اس بات میں دلچسپی نہیں کہ تھر کے کوئلے سے پیدا ہونے والی سستی بجلی نیشنل گرڈ کے ذریعے سارے ملک کو فراہم کی جائے یا وہ سندھ میں اتنی سستی بجلی پیدا ہونے کو ہی پسند نہیں کرتے یا وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سندھ اقتصادی ترقی میں سارے ملک سے آگے نکل جائے گا۔ بہرحال سندھ کے اقتصادی ماہرین کو اب تک پی ایم ایل (ن) حکومت کی طرف سے تھر کے کوئلے سے سستی بجلی تیار ہونے میں دلچسپی نہ لینے پر حیرت بھی ہے تو صدمہ بھی۔ اس صورتحال کے پس منظر میں سندھ کے کچھ اقتصادی ماہرین کی رائےہے کہ اگر مرکز کو اس پروجیکٹ میں دلچسپی نہیں ہے تو یہ ٹرانسمیشن لائن سندھ حکومت اپنے فنڈز سے بچھائے اور بعد میں سندھ میں ایک الگ گرڈ کا اہتمام کیا جائے جو سندھ تک محدود ہو۔ اسی اثناء میں میری سندھ کے اعلیٰ ترین حلقوں سے ملاقات ہوئی انہوں نے انکشاف کیا کہ حال ہی میں سندھ میں تیز رفتار اقتصادی ترقی کے لئے سندھ حکومت کی طرف سے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جس کے روح رواں سندھ کے ممتاز دانشور سینیٹر تاج حیدر ہیں۔ تاج حیدر نے انکشاف کیا کہ سندھ میں نہ صرف تھر کے کوئلے سے سستی بجلی بن سکتی ہے بلکہ سندھ کو دو ایسے اور وسائل میسر ہیں جن سے بھی اتنی ہی سستی بجلی بن سکتی ہے۔ یہ دو وسائل ہیں، سولر انرجی اور ونڈ انرجی (ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی) پتہ نہیں اب تک ہمارے حکمرانوں کے علم میں یہ بات نہیں آئی کہ سندھ سولر انرجی اور ونڈ انرجی میں بہت Rich ہے۔ ماہرین کے مطابق کوئلے، سولر انرجی، اور ونڈ انرجی سے ایک ہی وقت بجلی تیار کرنے کے پاور پلانٹس سے ایک سال میں سندھ میں اتنی بجلی بن سکتی ہے کہ سندھ (پاکستان) دنیا بھر میں سب سے زیادہ سستی بجلی تیار کرنےوالا علاقہ ہو گا ۔مگر سندھ کے اقتصادی ماہرین کے مطابق ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پاکستان پر حکومت کرنے والے پنجاب نواز حلقوں کو یہ بات کیوں پسند نہیں آئی۔ ان حلقوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اب تک مختلف وسائل سے سندھ سے اندازاً 4100 میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جو نیشنل گرڈ کے حوالے کی جاتی ہے اور اب تک ان میں سے سندھ کے حوالے ایک میگا واٹ بجلی بھی نہیں کی گئی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صرف میرپور سے 450کیوبک فٹ بجلی تیار ہو کر نیشنل گرڈ کے حوالے کی جاتی تھی مگر مرکز اس بجلی سے خیرپور کارخانوں کے لئے اب تک 3میگا واٹ بجلی بھی فراہم کرنے کے لئے تیار نہیں تھا مگر کافی کوششوں کے بعد مرکز نیشنل گرڈ سے3میگا واٹ بجلی خیرپور کے لئے فراہم کرنے پر راضی ہوا ہے لہٰذا سندھ کے اندر یہ مطالبہ زور پکڑ تا جا رہا ہے کہ سارے صوبے مل کر کوشش کریں کہ ہر صوبے میں پیدا ہونے والی بجلی گیس اور دیگر قدرتی وسائل پر متعلقہ صوبوں کا ہی حق ہو۔ کہا جاتا ہے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ جس صوبے سے گیس اور بجلی پیدا ہو گی اس پر پہلا حق اس صوبے کا ہوگا۔ مگر مرکزاس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے بلکہ اب تو ساری 18ویں ترمیم کو بھی تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ 4سال ہو گئے ہیں کہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی مالیاتی ایوارڈ کا بھی اعلان نہیں کیا گیا۔ ان بالا حقائق کی وجہ سے اقتصادی صورتحال کے بارے میں سندھ میں قائم کی گئی کمیٹی نےرپورٹ تیار کی ہے۔ جس کے تحت ایک ایسا پلان تشکیل دینے کی سفارش کی گئی ہے جو سندھ کی اقتصادی ترقی کے لئے ’’کک اسٹارٹ‘‘(Kick Start)ثابت ہو۔ اس سلسلے میں پلان کی پہلی ترجیح یہ ہو گی کہ سندھ میں بیروزگاری ختم کی جائے۔
ان حلقوں سے اس بات پر افسوس ظاہر کیا گیا ہے کہ سندھ اس وقت بیروزگاری کا سب سے بڑا کیس ہے مگر باقی صوبوں یعنی کے پی ، حتیٰ کہ پنجاب کے سرائیکی بیلٹ سے بیروزگاروں کی فوج در فوج سندھ روزگار حاصل کرنے کے لئے آ رہی ہے۔
ان حلقوں نے زور دیا کہ مرکز اور پنجاب حکومت فقط پنجاب کے مرکزی علاقے میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ دیگر صوبوں اور پنجاب کے دیگر علاقوں مثلاً سرائیکی بیلٹ میں بھی روزگار کے مواقع فراہم کریں۔

تازہ ترین