جدوجہد آزادی میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے سب سے بڑا اور اہم عنصر بکھرے ہوئے شیرازے کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 1935ء میں انگلستان سے واپس آکر اپنی پٹی پسری بکھری قوم کو ایک جھنڈے تلے متحد کیا۔ علامہ اقبال نے اس سلسلے میں راہ ہموار کرنے میں فعال کردار ادا کیا۔ علامہ اقبال اتحاد بین المسلمین بالخصوص مسلمانان ہند میں اس شعور کو بیدار کرنے کیلئے اپنے افکار عالیہ سے کامیاب ہوئے۔ تحریک پاکستان میں ہر علاقے اور مسلک کے لوگ شریک تھے۔ مسلم قوم میں اس وقت انتشار پھیلا ہوا تھا وہ جدوجہد آزادی کی راہ میں زبردست رکاوٹ بنا ہوا تھا ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی سچا رہنما انہیں متحد رکھنے پر کامیاب ہو سکے۔ اس فریضے کی ادائیگی کے لئے اللہ تعالیٰ نے موزوں ترین رہنما قائداعظم محمد علی جناح کو بھیجا۔ علامہ اقبال نے دعا کی تھی کہ اللہ پاک ان کی باقی زندگی جناح کو دے دے۔ مولانا محمد علی جوہر علالت کے دوران جب گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے عازم سفر ہوئے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ باری تعالیٰ جناح کے دل میں قوم کی قیادت سنبھالنے کا جذبہ ڈال دے کہ اس کے علاوہ اب کوئی اس نیّا کو پار لگانے والا باقی نہیں رہا۔ زعماء تحریک پاکستان کے ایثاروخلوص کا یہ عالم تھا کہ جب 1919ء کے فروری میں امرتسر کے فرید چوک میں مسلم لیگ کا جلسہ ہوا۔ جلیاں والے باغ کا سانحہ ہو چکا تھا۔ جنرل ڈائر نے ہزاروں ہندوستانیوں پر گولی چلوا کر ہلاک کر دیا تھا لوگوں کے جذبات انگریزوں کے خلاف بھڑکے ہوئے تھے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی باروولی جیل سے رہا ہو کر سیدھے جلسے میں شرکت کیلئے پہنچے۔ مولانا جوہر کو دو سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرکے آئے تھے۔ جلسے کی صدارت مسیح الملک حکیم اجمل خان نے فرمائی، جلسہ شروع ہوا تھا کہ علامہ اقبال لاہور سے چل کر امرتسر پہنچے اور اپنے احباب کے ہمراہ شریک جلسہ ہوئے۔ علامہ کے آنے سے جلسے کی رونق دوبالا ہوگئی۔ علامہ اقبال نے مولانا محمد علی جوہر کی تعریف تہنیت کے اشعار سے کی جو اخوت ویگانگت کی نادر مثال ہے۔ آپ نے فرمایا
ہے اسیری اعتبار افزاء جو ہو فطرت بلند
قطرہ نیساں ہے زندان صدف سے ارجمند
مشک ازفر چیز کیا ہے اک لہو کی بوند ہے
مشک بن جاتی ہے ہو کر نافہ آہو میں بند
ہر کسی کی تربیت کرتی ہے گو قدرت مگر
کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام قفس سے بہرہ مند
شہپر زاغ و زغن در قید و بند صید نیست
ایں سعادت قسمت شہباز وشاہیں کردہ اند
اشعار کے ایک ایک لفظ سے خلوص آشکارہ ہے۔ واضح رہے مولانا محمد علی جوہر مسلم لیگ کے بانی ممبروں میں سے ایک تھے۔ مسلم لیگ کی روداد اور مکمل کارروائی کو مولانا نے اپنی کتاب THE GREEN BOOK میں مرتب کیا تھا۔ زعماء پاکستان سب ہی اعلیٰ تعلیمیافتہ تھے کمال یہ تھا ان حضرات نے یورپ، انگلستان، جرمنی کے ملکوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی لیکن اپنی قوم اپنے ملک کیلئے جذبہ حریت سے سرشار تھے اس سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ حصول علم سے روشن خیالی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہندوستان کے غلامستان میں جذبہ آزادی کی تحریک پروان چڑھتی چلی گئی۔ لوگوں میں خلوص ایثار وقربانی کا جذبہ تھا حوصلے بلند غلامی میں بالعموم ضمیر بے داغ فکر آزاد محمد علی جوہر بولتے ایسا معلوم ہوتا ابولہول کی آواز اہرام مصر سے ٹکرا رہی ہے مولانا ظفر علی خان شعلہ بیانی کرتے ہر دل میں طوفان آرزو ہرآدمی با عمل اور ہر قدم بامقصد ہر سیاسی پیشوا مرد کوہ گن قلب مطمئن نظر صاف ہم سیاسی طور پر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ضرور تھے لیکن جسم وجاں کی تمام توانائیاں اپنے شباب پر تھیں آزمائش کی ان گھڑیوں میں فروزاں شعلہ آزادی جدوجہد کی راہوں کو دور دور تک منور کرتا تھا۔ اس پاکیزہ مقصد کے حصول کیلئے ہمارے بزرگوں کو کتنی قربانیاں دینی پڑیں تاریخ کے اوراق ان دکھ بھری داستانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ 3 جون 1947ء کو آل انڈیا ریڈیو سے جب لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن نے انتقال اقتدار اور دو آزاد خودمختار مملکتوں کے قیام کے فیصلے کا اعلان کیا میں موقع پر موجود تھا۔ قائداعظم نے ماؤنٹ بیٹن کے بعد اپنی تقریر میں انتقال اقتدار کے مرحلہ کو پرامن طریقے پر مکمل کرنے کی اپیل کی۔ آل انڈیا ریڈیو سے پہلی بار پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا تو پاکستان بننے کی خبر سنتے ہی ہندوؤں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے اس بری طرح سے پورے ہندوستان میں فساد پھیلے کہ پاکستان آنے والے قافلوں کو راستے میں لوٹا گیا۔ عورتوں کو اغوا کیا گیا۔ قتل وغارت گری کا بازار پھر گرم ہوا۔ 20 لاکھ جانوں کی قربانی دینے کے بعد ہم نے یہ وطن عزیز حاصل کیا۔ 14 اگست 1947ء کو 27 رمضان المبارک کی نورانی شب تھی پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک عظیم اسلامی مملکت کی حیثیت سے نمودار ہوا۔ بدقسمتی یہ دیکھئے کہ پاکستان بننے کے 13 ماہ کے قلیل عرصے میں بانی پاکستان قائداعظم رحلت فرما گئے۔ قائداعظم کے دست راست لیاقت علی خان کو جو قوم کو متحد رکھنے میں کامیاب ہو سکتے تھے طاغوتی طاقتوں نے سازش کے ذریعے شہید کر دیا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں انارکی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ معاشرے میں نہ خوف خدا رہا نہ قانون کا احترام۔ اقتدار کی وہ جنگ ہے جو 1958ء کے مارشل لا سے شروع ہو کر آج تک چلے جا رہی ہے۔ ہم نے اپنی کوتاہ عقلی کے سبب 1971ء میں ملک دولخت کیا۔ اس سانحہ عظیم سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا۔ عوام کے جان مال آبرو کی حفاظت کرنا حکومت کا فرض ہے۔ ارباب حکومت خود بلٹ پروف گاڑیوں میں باہر نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ وہ مضمون ہے کان را کہ خود گم کردہ ای۔
جو خود گمراہ ہیں کیسے راہبری کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان کا خون بہہ رہا ہے۔ امن وامان کی حالت ابتر ہے۔ ہوش ربا مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ سیلاب نے پورے ملک میں وہ تباہی مچائی ہے کہ آئندہ کئی برس بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کاروبار معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں محرومی اور بے انصافی کی نوبت کہ علیحدگی کی تحریک نے سر اٹھایا ہے۔ قدرت کا اٹل قانون ہے تم جو بوؤ گے وہی فصل کاٹوگے۔ دعائیں بادلوں سے ٹکرا کر واپس آتی معلوم ہوتی ہیں لیکن کیونکہ مانگنے کیلئے کوئی اور در ہے نہیں لہٰذا اللہ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو استحکام وبقاء کے دوام عطا فرمائے۔