• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم کہ ہیرو نہیں ون بھی نہیں...دیوار پہ دستک …منصورآفاق

کئی سال پہلے میں نے ایک قاضی القضاہ کی کہانی لکھی تھی۔ اب اُس کہانی کا ایک اگلا موڑسامنے آنے والا ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ وہ جو کل ہیرو تھا کیا وہ اب ولن بن جائے گا اس حوالے سے مجھے جاوید انور کی نظم بار بار یاد آتی ہے ’ہم کہ ہیرو نہیں ولن بھی نہیں‘
سورجوں نے ہمارے ہونٹوں پر
اپنے ہونٹوں کا شہد ٹپکایا
اور ہماری شکم تسلی کو
جون کی چھاتیوں میں دودھ آیا
لورکا کو کلائی پر باندھا
ہوچی منہ کو نیام میں رکھا
ساڑھے لینن بجے سکول گئے
صبح ِ عیسیٰ کو شام میں رکھا
ارمغان حجاز میں سوئے
ہالی وڈ کی اذان پر جاگے
ہم نے فرعون کا قیصدہ لکھا
ہم نے کوفے میں مرثیے بیچے
زندگی کی لگن نہیں ہم کو
زندگی کی ہمیں تھکن بھی نہیں
ہم کہ ہیرو نہیں ولن بھی نہیں
میرا خیال ہے میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اسے سمجھنے کے لئے یہ کہانی کافی ہے۔اگر اس کے باوجود بھی بات سمجھ میں نہ آئے تو وقت کا انتظار کیجئے۔یہ پانچویں صدی ہجری کے پہلے مہینوں کی بات ہے دمشق کے قاضی القضاة یحییٰ بن قاسم کو بادشاہ نے اپنے محل طلب کیاتھا مورخ لکھتا ہے کہ ا نہوں نے پوری تیاری کی، قاضی القضا ةکا مخصوص لباس پہنا،بال سنوارتے ہوئے انہیں خیال آیا کہ اس عمر میں بھی اس کے بال کالے ہیں پھرانہیں اپنے کالے بالوں کے توسط سے بادشاہ کی بڑے بڑے بالوں والی کالی بلی یاد آگئی جو ہر لمحہ بادشاہ کے ساتھ ہوتی ہے۔وہ بادشاہ پالتو جانوروں سے بہت محبت کرتا تھااُس کی اِس رحمدلی کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اور اُسے دیکھتے ہوئے تقریبا ً تمام اہل دربار نے بلیاں اور کتے پال لئے تھے۔۔۔۔۔قاضی القضا ہ نے سوچا ۔۔۔محل میں کیوں بلایا ہے بادشاہ نے اسے۔۔وہ کئی مرتبہ پہلے بھی بادشاہ کے محل میں مختلف تقریبات میں شرکت کیلئے جا چکے تھے مگر آج انہیں علم تھا کہ وہاں کوئی تقریب نہیں ہے۔کئی اچھی بری باتیں ذہن میں آئیں مگر مضبوط دل کا آدمی تھے۔دو گھوڑوں والی بگھی میں بیٹھ کر بادشاہ کے محل میں پہنچ گئے۔ انہیں بڑے عزت و احترام سے اندر لے جایا گیااورملاقات کیلئے ایک خوبصورت انتظار گاہ میں بٹھادیاگیا وہ جس کرسی پر بیٹھائے گئے ان کے سامنے ایک بڑی کھڑکی تھی باہر محل کاوسیع دلان تھاانہوں نے دیکھا کہ محل کے وسیع دلان میں ایک سکیئرکرو کی طرح کا بھس کا آدمی کھڑا کیا گیاہے پھر انہیں احساس ہوا کہ اُس بھس کے آدمی کو بالکل انہی جیسے کپڑے پہنائے گئے ہیں یعنی وہ قاضی القضاہ کے لباس میں ہے۔ایک طرف کچھ تیرانداز سپاہی دکھائی دئیے۔جو اس بھس بھرے آدمی پر نشانہ بازی کی مشق کر رہے تھے ان کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھرنے لگیں ۔سنسناتاہوا تیرجیسے ہی اس بھس بھرے قاضی القضاہ کے سٹیچومیں اترتا تو انہیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے تیر ان کی چھاتی سے گزر گیا ہے۔وہ کافی دیر یہ تماشا دیکھتے رہے اور پھر انہوں نے دیکھا ایک تیز رفتار گھڑسوار اس بھس بھرے آدمی کے قریب سے گزرا ہے اور اس نے تلوار سے اس کی گردن دھڑ سے الگ کردی ہے۔اب ان کیلئے یہ تماشا دیکھنا مشکل ہو گیا تھا انہوں نے خوف سے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔انہیں اپنی موت کا یقین ہونے لگا تھاانہیں وہ تمام باتیں یاد آنے لگی ہیں کہ جو کبھی انہوں نے بادشاہ کے خلاف سوچی بھی تھیں ۔ ایک ایک کرکے وہ سارے فیصلے ان کے آنکھوں سے سامنے سے گزرنے لگے جو انہوں نے بادشاہ کی خواہش کے برعکس کئے تھے۔ انہوں نے ان فیصلوں کے بارے میں سوچا تو ان کے ضمیر نے بھی ذراسی انگڑائی لی اور کہا یحیی بن قاسم ! تم نے وہی فیصلہ کئے تھے جو انصاف کے تقاضوں کے مطابق تھے۔ اب ان کے ذہن میں کشکمش شروع ہوگئی تھی کہ کیا مجھے بادشاہ کے سامنے جھک جانا چاہئے یا ایک بہادر قاضی القضاہ کی طرح موت کو گلے لگا لینا چاہئے۔ موت۔۔ وہ کانپ اٹھے۔مرنے کا تصور بہت ہولناک تھا۔مگرپھر انہیں ضمیر کچکوکے مارنے لگا۔وہ کرسی سے کھڑے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ دروازے پر کھڑے پہرے دار نے اپنی میان سے تلوار باہر نکال لی ہے ۔انہوں نے جلدی سے اس طرف سے آنکھیں چرائی اور منہ دوسری طرف کر لیا ۔پھربھاری بھاری قدموں سے چلتے ہوئے کھڑکی کے پاس جا کھڑے ہوئے۔ دلان میں اس وقت سپاہی نہیں تھے۔ صرف بھس کا بناہوا قاضی القضاہ کا زمین میں گڑاہوا دھڑتھاجو تلوار کے وار سے ایک طرف جھک گیا تھا اور اسکے قریب ہی اس کا کٹا ہواسر بھی پڑا تھا ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا اور انہیں سچ مچ یوں لگا جیسے وہ بھس بھرا ہوا کوئی دھڑ نہیں خود ان کااپنا جسم ہے اوروہ کٹا ہوا سر انہی کے کاسر ہے۔تقریبا دو گھنٹوں کے انتہائی صبر آزما لمحات گزارنے کے بعد بادشاہ نے شرفِ ملاقات کیلئے بلالیا۔۔بادشاہ سلامت نے کوئی لمبی چوڑی گفتگو نہیں کی۔ صرف اپنی بلی کو سہلاتے ہوئے بڑے نرم لہجے میں اتنا کہا کہ آپ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں اسی میں شاید ہم دونوں کی بہتری ہے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کے خود ساختہ انصاف کے لمبے فیصلے محل سرا کی دیوراوں تک پہنچ چکے ہیں ۔ قاضی القضاہ کو خاموش دیکھ کر بادشاہ کہنے لگامیرا خیال ہے ابھی آپ کو سوچنے کیلئے اور وقت کی ضرورت ہے۔ آپ دوسرے کمرے میں آرام سے بیٹھ کر سوچئیے۔ میں کچھ دیر کے بعد آپ کو دوبارہ بلا لوں گا۔اب آپ جاسکتے ہیں ۔
قاضی القضاہ گومگو کی کیفیت میں دوبارہ اسی انتظارگاہ میں آکر بیٹھ گئے تھے۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ کچھ پہرے دار انتظارگاہ کے اندر ننگی تلواروں کے ساتھ آئے اور اس سے کچھ فاصلے پر آکر کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے ان کی قہر آلود نظروں سے بچنے کیلئے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سوچنے لگے کہ کیاوہ استعفیٰ دیں یا عزت کی موت کو گلے لگا لیں۔انہوں نے اپنے دل مضبوط کرنے کی کوشش کی تو بیوی بچے ان کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے مگر اس کمزور لمحے میں بھی انہوں نے سوچا کہ ان کیلئے ایک بزدل زندہ باپ کے بیٹے ہونے سے ایک بہادر اورغیرت مند مردہ باپ کی اولاد ہونا زیادہ بہتر ہے۔ اسی کشمکش میں تقریباً چار گھنٹے گزرگئے۔ انہیں اندازہ تھا بادشاہ انہیں جان بوجھ کر انتظار کی اذیت سے گزار رہا ہے اور پھر بادشاہ نے انہیں بلا لیا۔ بادشاہ کمرے میں کھڑا تھا۔ انہیں دیکھ کراس نے بہت کرخت لہجے میں پوچھا کیا فیصلہ کیا ہے۔ قاضی القضاة نے اپنی تمام حسیات مجتمع کیں اور کہا۔ میں نے سوچ لیا ہے میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔ بادشاہ نے غصے کے عالم میں تلوار کھنچی۔ موت قاضی القضا کی آنکھوں کے سامنے لپکی مگر بادشاہ نے اس پر وار کرنے کی بجائے اپنی محبوب ترین لمبے لمبے کالے بالوں والی بلی کی گردن تن سے جدا کر دی اور کمرے سے نکل گیا۔ لہو میں بھری ہوئی مردہ بلی اور قاضی القضاہ کمرے میں اکیلے رہ گئے۔ چند لمحوں کے بعد کچھ ملازم مردہ بلی کی میت اٹھانے آئے پھرایک پہرے دار وارد ہوا اور اس نے کہا۔ آپ جا سکتے ہیں۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے محل کے بڑے دروازے کی طرف جانے لگے انہیں ہر لمحہ یہی احساس ہو رہا تھا کہ ابھی کوئی سنسناتا ہوا تیر پیچھے سے آئے گا اور ان کا سینہ چیر دے گا مگرکئی طویل رہداریوں سے گزرنے کے بعد بھی ایسا کچھ نہیں ہوا انہوں نے سوچاکہ شاید بادشاہ خوف فسادِ خلق کی وجہ سے مجھے اپنے محل میں قتل نہیں کرنا چاہتا۔ وہ محل کے بڑے دروازے سے باہر نکل آئے۔ باہر ان کی دو گھوڑوں والی بگھی موجود تھی وہ جلدی سے اس میں سوار ہو گئے اوربگھی چل پڑی۔ وہ پسینے سے شرابور تھے۔ انہیں اپنی سانس درست کرنے میں بھی کچھ وقت لگا۔ گھٹن کے احساس کو دور کرنے کیلئے انہوں نے اپنے اچکن نما لبادے کے بٹن کھول دیئے اوراپنی دستاراتار کر اپنے قریب سیٹ پر رکھ لی اچانک ان کی نظر بگھی میں لگے ہوئے شیشے پر پڑی اور وہ حیرت سے اپنا چہرہ دیکھنے لگے۔ وہ چند گھنٹے اتنے طویل تھے کہ ان کے سر کے بال بھی سفید ہوگئے تھے۔
تازہ ترین