سفری پابندی کا اطلاق چاڈ، ایران، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن کے مختلف قسم کے مسافروں پر ہونا تھا۔
امریکی خبرر رساں ادارے کے مطابق وائٹ ہائوس نے ایک وفاقی جج کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ انتظامی حکم نامے پر حکم امتناع کے اجراءپر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے جس میںانتظامی حکم نامے کے ذریعے بدھ سے متعدد ملکوں کے مسافروں کی امریکا آمد پر پابندی عائد کرنا مقصود تھی۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ضلعی عدالت کا آج کا پر خطر اور نقص زدہ فیصلہ امریکی عوام کو محفوظ رکھنے کے لئے امریکا میں داخل ہونے والوں کے لئے سکیورٹی کے کم سے کم حفاظتی معیار پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے صدر کے اقدامات کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
وائٹ ہائوس کا یہ رد عمل جج ڈیرک واٹسن کا فیصلہ آنے کے فوری بعد جاری ہوا جس میں جج نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے 6 ملکوں کے مسافروں پر سفری پابندی لگائی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتظامی حکم نامے میں امریکی سکیورٹی کے معیاروں کے بارے میں درکار معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
میری لینڈ کے ایک جج نے اسی طرح کے ایک اور مقدمے کی سماعت کی جس میں یہ دلیل سامنے آئی کہ خود ٹرمپ کے الفاظ ہی پابندی میں رکاوٹ کے فیصلے کے موجب بنے۔امریکی ضلعی جج تھیوڈور چوانگ نے منگل کے روز دلائل سنے جو استدلال کے حامی وکلا گروپوں نے پیش کئے تھے جن کی قیادت بین الاقوامی مہاجرین کا اعانتی پراجیکٹ کر رہا تھا۔
جن میں اس بات کی استدعا شامل ہے کہ سفری پابندی کے موجودہ حکم نامہ میںبھی مسلمانوں پر پابندی کا کہا گیا ہے او اس میں صدارتی اختیارات سے تجاوز کیاگیا ہے۔سفری پابندی کا اطلاق چاڈ، ایران، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن کے مختلف قسم کے مسافروں پر ہونا تھا۔واٹسن کا عبوری حکمِ امتناع شمالی کوریا اور وینزویلا پر لگائی گئی پابندیوں سے واسطہ نہیں رکھتا۔