کراچی( تجزیہ / مظہر عباس ) جنرل ( ر) پرویز مشرف اب ماضی اور تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔ پاکستان پر ان کا آمرانہ عرصہ اقتدار 9 سال پر محیط رہا۔ 3نومبر 2007کو انہوں نے ایمرجنسی لگائی تا کہ اپنی مدت حکمرانی کو مزید طول دے سکیں لیکن انہیں اس کیلئے جہاں وہ سیاسی حمایت سے محروم رہے وہیں خود اپنے ادارے کی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ 5 ماہ بعد ہی وہ بے آبرو ہو کر کوچہ اقتدار سے نکالے گئے۔ ان کا عرصہ اقتدار 12 اکتوبر 1999 سے 3 نومبر 2007 تک محیط رہا۔ اس پر فیصلہ تاریخ کو کرنے دیں۔ اب یہ سیاسی اور فوجی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ آئندہ صرف جمہوری عمل کے ذریعہ تبدیلی کو یقینی بنائیں۔ 3 نومبر کا یہی ایک واحد سبق ہے جو کل منایا جائے گا۔ جب معزول وزیراعظم نواز شریف احتساب عدالت میں حاضر ہوں گے اور ان کا سیاسی مستقبل اسی مقدمے پر منحصر ہے اب جبکہ ہر طرح کی قیاس آرائیاں گردش میں ہیں، بحث مباحثے ہو رہے ہیں۔ انتخابات میں تاخیر کی بھی افواہیں ہیں، ٹیکنوکریٹ حکومت کی بھی باتیں کی جارہی ہیں لیکن ارضی صورتحال مختلف ہے ۔ اس کی وجہ طاقت ور عدلیہ اور میڈیا ہیں۔ یہ دو ادارے پرویز مشرف کی ’’ ایمرجنسی پلس ‘‘ کا ہدف رہے ۔پرویز مشرف نے دیگر فوجی آمروں کی طرح اپنے دور میں چند کام بھی کئے ہوں گے لیکن آمروں اور ڈیموکریٹس میں فرق حکمرانی کیلئے قانونی جواز کا ہوتا ہے ۔ غیر قانونی اور ماورا آئین اقدامات کو قانونی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ پی سی او کے تحت کٹھ پتلی عدلیہ کے ذریعہ پوری کر لیتے ہیں۔ مجھے کم از کم جو دکھائی دیتا ہے ، پرویز مشرف پر مقدمہ نہیں چلے گا ۔ اس کے بجائے جس شخص نے ان پر مقدمہ چلانے کی کوشش کی اسے خود مقدمے کا سامنا ہے ، وہ نواز شریف ہیں۔ جن پر مقدمے کی کوئی مخالفت نہیں کرتا اگر وہ مجرم ثابت ہوئے تو عدالت سے انہیں سزا ملنی چاہئے لیکن جب پرویز مشرف پر مقدمے کی بات ہوتی ہے تو ’’ اگر مگر‘‘ کی تکرار کیوں ہو جاتی ہے ۔پرویز مشرف جنرل ( ر) راحیل شریف کے شکر گزار ہونے میں حق بجانب ہیں، جنہوں نے ان کے بحفاظت خروج میں اہم کردار ادا کیا،اب آئین کے آرٹیکل ۔ 6 کے تحت پرویز مشرف پر انتہائی غداری کا مقدمہ چلانے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔ لہٰذا اب تاریخ کو سابق آمر کے اقدامات اور حکمرانی کا جانچنے اور جائزہ لینے کا موقع دیں۔ پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کو ’’ ایمرجنسی پلس ‘‘ کے اقدام کا مقصد عدلیہ اور میڈیا کو کچلنا تھا ، لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ۔ پرویز مشرف نے جب خصوصاً لیگل فریم ورک آرڈر ( ایل ایف او ) پر دستخط کئے اور سترہویں آئینی ترمیم لائی گئی، اگر انہوں نے ایفائے عہد کیا ہوتا وہ تاریخ مرتب کر سکتے تھے لیکن انہوں نے عہد پورا نہیں کیا۔ پرویز مشرف کی 2013 کے عام انتخابات میں شرکت کیلئے وطن واپسی تمام آمروں کیلئے چشم کشا ہے جو عوام میں اپنی مقبولیت کی غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں لیکن تاریخ انہیں آمر ہی قرار دیتی ہے ۔ 2007 پرویز مشرف کیلئے بدترین سال رہا وہ ایمرجنسی پلس لگا کر اپنے سیاسی دوستوں سے بھی محروم ہوگئے۔ مثال کے طور پر جب پرویز مشرف نے بنظیر بھٹو کے ساتھ این آر او پر دستخط کئے تو وہ 9 برسوں تک ساتھ دینے والے چوہدری برادران کی حمایت سے محروم ہوگئے۔ پاکستان کا سیاسی نظام بڑا غیر یقینی ہے ۔ عجیب و غریب باتیں ظہور پزیر ہوتی رہتی ہیں جیسا کہ آجکل کی صورتحال ہے جو لوگ پرویز مشرف کے حامی ہیں یا کم از کم ان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں وہ بلدیاتی اداروں میں اصلاحات ، 2002 کے پولیس آرڈر اور نجی چینلز کی اجازت کو ان کے مثبت اقدامات گردانتے ہیں لیکن ان کے ان اقدامات کے پشت پر نیت قومی سیاسی جماعتوں میں رخنے اور دراڑیں ڈالنا تھی ۔ انہوں نے مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ، گزشتہ آمروں کی طرح پہلی بار وہ عبوری آئینی حکم نامہ ( پی سی او ) لے کر آئے اور دوبارہ 2007 میں بھی یہ عمل دہرایا، پہلی بار وکلا تحریک نے پرویز مشرف کو کمزور کیا۔ 3 نومبر 2007کے بعد عدالت عظمیٰ جسے ’’ ڈوگر کورٹ ‘‘ کہا جاتا تھا، وہ بھی پرویز مشرف کا اقتدار نہ بچا سکی۔ 2002 میں نجی ٹی وی چینلز کو لائسنس جاری ہوئے لیکن 3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے مخصوص آمرانہ ذہنیت والے اقدامات کئے۔ تمام چینلز سے نشریات بند کر دی گئیں اور اس اقدام سے چیئرمین پیمرا تک لاعلم رہے ۔ ڈھائی سو صحافی گرفتار کر لئے گئے ۔ پی ایف یو جے پر غداری کا مقدمہ بنا، حتیٰ کہ میڈیا مالکان سے حلف مانگا گیا کہ وہ صدر کو ہدف تنقید نہیں بنائیں گے ۔ تحریک 88 دنوں تک جاری رہی اور چینلز کی بحالی پر ختم ہوئی۔ پرویز مشرف اکثر کہتے ہیں کہ میڈیا پر پابندی کا انہیں غلط مشورہ دیا گیا ، اب پرویز مشرف اور ان کا دور حکمرانی تاریخ کا حصہ ہیں ان کی سیاسی جماعت عوام میں ناآشنا ہے وہ ایم کیو ایم بانی کے ممکنہ متبادل رہنما بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کو بڑی ریلیف دی لیکن 12 مئی 2007 کو کراچی میں ان کا اقدام سیاہ ترین باب ہے ۔