• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے چیئرمین کے تحت نیب سیاستدانوں کیخلاف فعال، مشرف کیخلاف تماشائی

Todays Print

اسلام آباد (انصار عباسی) اپنے نئے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے تحت قومی احتساب بیورو (نیب) نے مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی مبینہ کرپشن پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دیا ہے جبکہ پرویز مشرف اور ان کے دور میں ہونے والے غلط کاموں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ نیب کی جانب سے نواز لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ق لیگ وغیرہ کے سیاست دانوں کی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور مقدمات چلائے جا رہے ہیں جبکہ ادارے نے یہ بات نظر انداز کر دی ہے کہ پرویز مشرف نے کس طرح اپنے دور میں کرپٹ افراد کو بچانے کیلئے اقدامات کیے۔

پرویز مشرف کے اربوں روپے بھی قومی احتساب بیورو کو نظر نہیں آ رہے۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران، نیب مسلسل جنرل پرویز مشرف کے ان غلط اقدامات کو نظر انداز کرتا رہا ہے کہ کس طرح انہوں نے 10؍ ہزار کنال فوجی زمین (جو شہداء کے اہل خانہ کیلئے تھی) اپنے من پسند افراد کو رشوت کے طور پر دی۔ اس حوالے سے کیسز کی فائلیں نیب کے دفاتر میں دھول چاٹ رہی ہیں۔

2005ء کے اسٹاک ایکسچینج کی ہیرا پھیری ہو یا پھر پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کا معاملہ، 2006ء میں چینی کا اسکینڈل ہو یا پھر صاف پانی پروجیکٹ میں اربوں روپے کی ہیرا پھیری، پاک فضائیہ کیلئے جاسوسی کے طیارے کی خریداری سمیت دفاعی ساز و سامان کے حصول میں اربوں روپے کی کمیشن، سیاسی رہنمائوں کو فوجی زمین بطور رشوت دیئے جانے کا کیس، 2005 کے زلزلے کے فنڈز میں کرپشن سے لے کر جعلی ملازمین کی پنشن کا اسکینڈل، جکارتہ میں پاکستان کی پراپرٹی کی متنازع فروخت، غیر قانونی تقرر و بھرتیوں سمیت تقریباً ہر معاملے کو نیب نے نظرانداز کر دیا ہے۔ جس وقت سیاست دانوں کیخلاف آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں، اس وقت نیب نے جنرل (ر) پرویز مشرف سے یہ پوچھنا تک گوارہ نہ کیا کہ انہوں نے ملک کے اندر اور باہر اپنے اربوں روپے کے اثاثے کس طرح بنائے۔

سابق فوجی آمر سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا گیا لیکن سیاست دانوں کیخلاف نیب ان کے اثاثوں کے حوالے سے ریفرنس پر ریفرنس دائر کر رہا ہے۔ نیب نے اپنی 2015ء کی رپورٹ برائے میگا کرپشن اسکینڈل میں سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ زمین کے حوالے سے کئی بڑے اسکینڈل موجود ہیں لیکن سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کا اس رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں تھا جنہوں نے شہداء کے لواحقین کیلئے مختص 10؍ ہزار کنال زمین اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھیوں کو دیں، یہ لوگ فوجی زمین کے حصول کے حقدار نہیں تھے لیکن درجنوں سویلین افراد بشمول پرویز مشرف کے باورچی، نائی، خانساماں، محافظ اور ذاتی اسٹاف کے دیگر ارکان کو یہ زمین الاٹ کی گئی۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں موجود اس فوجی زمین کا بڑا حصہ جی ایچ کیو نے پرویز مشرف کے حکم پر سویلین افراد کو الاٹ کیا۔ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں دو درجن کے قریب اسٹاف ملازمین کو سیکڑوں کنال فوجی زمین الاٹ کی گئی۔ پنجاب میں پرویز مشرف کے دور میں صوبائی حکومت کی جانب سے 6700؍ کنال فوجی زمین 47؍ عام افراد کو الاٹ کرنے کے کیس میں شہباز شریف کی حکومت میں فوجی حکام کو ایک ریفرنس بھیجا گیا تھا تاکہ خامیوں سے پُر اس الاٹمنٹ کو منسوخ کیا جا سکے۔ غیر فوجی حکام بشمول ڈیرہ اسماعیل خان میں کچھ سیاست دانوں کے فرنٹ میں کو دی جانے والی فوجی زمین کے حوالے سے فوجی ترجمان نے کچھ سال قبل اعتراف کیا تھا کہ اس الاٹمنٹ کی قانونی حیثیت نہیں تھی لیکن فوجی آمر اور سابق صدر کی جانب سے واضح طور پر کیے گئے اس غیر قانونی اقدامات کے باوجود ان کیخلاف کوئی کیس قائم نہیں کیا گیا۔ پرویز مشرف کے دور میں پنجاب میں 47؍ عام افراد (سویلین)، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ریونیو محکمے سے تھا، کو 6700؍ کنال فوجی زمین الاٹ کی گئی تھی۔

ان میں سے زیادہ تر افسران کو شہباز شریف کی گزشتہ حکومت نے او ایس ڈی بنا دیا تھا۔ پنجاب حکومت نے ایلوکیشن منسوخ کرانے کیلئے باضابطہ طور پر فوجی حکام سے بھی رابطہ کیا تھا۔ پنجاب حکومت کی رائے تھی کہ جن سویلین افراد کو فائدہ پہنچایا گیا ہے انہیں فرائض سے ہٹ کر خدمات انجام دینے کی وجہ سے انعام و کرام دیا گیا۔ اسی طرح 2005ء کے اسٹاک ایکسچینج میں ہیرا پھیری کے کیس میں بھی بااثر افراد کے گینگ کیخلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پرویز مشرف کے دور کے اس اسکینڈل میں، سرکاری کمیٹی کے نتائج کے مطابق، عام شیئر ہولڈرز اور مڈل مین سے ان کی 13؍ ارب ڈالرز لوٹ لیے گئے۔

یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس لوٹ کے نتیجے میں فائدہ اٹھانے والے تقریباً 80؍ افراد، جو زیادہ تر پرویز مشرف کے ساتھی تھے، نے اس اسکینڈل میں اپنی جائیداد میں کروڑوں اربوں روپے کا فائدہ اٹھایا۔ تاہم، ان لوگوں سے نہ کوئی پوچھ گچھ کی گئی اور نہ ہی اربوں روپے لوٹنے پر انہیں گرفتار کیا گیا۔ ایک اور کیس میں، پرویز مشرف حکومت نے ملک بھر میں ’’پینے کا صاف پانی پروجیکٹ‘‘ شروع کیا تھا جس کے تحت دسمبر 2007ء تک ملک کی ہر یونین کونسل میں پینے کے صاف پانی کا واٹر پلانٹ لگایا جانا تھا۔

ابتدائی طور پر یہ پروجیکٹ 7.7؍ ارب روپے کا تھا لیکن بعد میں اسے بڑھا کر 16؍ ارب روپے کر دیا گیا۔ اسی طرح 3.6؍ ارب روپے کے توانا پاکستان پروجیکٹ میں ملک کے 29؍ اضلاع کے اسکولوں میں لڑکیوں کو خوراک کا پیکیج دیا جانا تھا، لیکن یہ پروجیکٹ کوڑے دان کی نظر ہوگیا کیونکہ اس میں پرویز مشرف کا من پسند وزیر ملوث تھا، لیکن نیب نے کبھی اس وزیر سے سوال نہیں پوچھا۔ حکومت نے سپریم کورٹ کی مداخلت پر اسٹیل ملز کی نجکاری کا معاملہ روک دیا، یہ کیس پرویز مشرف اور اس کے ساتھیوں کیخلاف ایک سنگین نوعیت کی چارج شیٹ تھا، جو ملک کے ایک اہم ترین اثاثے کو کوڑیوں کے دام بیچنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد، نجکاری کا عمل کو دھوکا قرار دیا گیا لیکن کسی کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ 2006ء میں نیب کے لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے چینی کے اسکینڈل کی تحقیقات کرانا چاہیں، اس میں مشرف دور کے کچھ وزراء ملوث تھے، لیکن اس کیس میں بھی بیورو کو تحقیقات سے روک دیا گیا۔ 2005ء کے زلزلے کی بحالی کیلئے مختص فنڈ میں بھی اربوں روپے کی کرپشن ہوئی، نیب کو اس ضمن میں کئی شکایات موصول ہوئیں جبکہ نیب کے فرنٹیئر آفس نے بھی کرپشن ڈھونڈ نکالی لیکن بیورو سے اس معاملے سے دور رہنے کا کہا گیا۔

2002ء میں دفتر خارجہ کے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں تعینات ایک سینئر سفارت کار نے اسلام آباد میں حکام کو بتایا کہ جکارتہ میں سفارت خانے کی ملکیت کو کوڑیوں کے دام فروخت کیا جا رہا ہے۔ نتیجتاً اس سفارت کار کو واپس بلا کر معطل کر دیا گیا اور 2007-08ء میں ریٹائرمنٹ تک بحال نہیں کیا گیا۔ پرویز مشرف کے دور میں تیل مافیا پر بھی قومی خزانے کو اربوں روپے کا چونا لگانے کا الزام لگا جس میں پرویز مشرف حکومت کے کچھ بڑے کھلاڑی ملوث تھے۔ نیب کو بتایا گیا کہ ریفائنریز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اپنے فائدے کیلئے نرخوں میں ہیرا پھیری کر رہی ہیں لیکن بیورو سے کہا گیا کہ وہ اپنی حدود عبور کرنے کی کوشش نہ کرے۔

تازہ ترین