• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیام پاکستان سے لیکر آج تک ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے سفر کو متعدد مخلص اور متعدد ہی غیر مخلص افراد اور طبقوں نے مکمل حد سے بھی کہیں زیادہ مجروح کیا۔
آج بھی یہ افراد یا طبقے اپنی اس مخلص یا غیر مخلص ’’ملکی بدی‘‘ سے باز نہیں آتے، کبھی ٹیکنو کریٹ حکومت، کبھی کسی آئیڈیل کی سربراہی اور کبھی پہلے احتساب پھر انتخاب، جیسی غیر اجتماعی ریاستی عملیت کے نظام کی، بلا کسی اجتماعی عمل کے تشکیل کو ملک و قوم کے ترقی یافتہ مستقبل کی سند قرار دیتے ہیں۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ان لوگوں اور ان گروپوں کی نظریاتی یا دنیاوی نفس پرستانہ عذاب کاریاں رکنے میں کیوں نہیں آ رہیں؟ طاقت کا توازن ان کے حق میں ہی کیوں منجمد ہو گیا ہے؟ دراصل یہ عناصر ہمارے قومی ملکی سفر کے قومی منشور ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کو قومی ٹریک سے اتارنے یا ٹریک پر ہونے کی صورت میں اس کی راہوں کو رکاوٹوں کے غبار سے دھندلا کرنے میں کامیاب رہے ہیں، پاکستانی قوم کو ان کے خلاف اپنی وہ مقدس ترین جنگ جاری رکھنی ہے جسکا آغاز قیام پاکستان کے ابتدائی سیاسی عمل کے عروج پر وار کرنے سے لے کر 12؍ اکتوبر 1999ء تک اور دسیوں غیر جمہوری واقعات کی صورت میں آج بھی جاری ہے۔
سیاستدانوں میں اختلافات ہوتے ہیں، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں قسم کے ممالک کی جمہوریتوں میں یہ اختلافات ’’گناہ کبیرہ‘‘ بنا کر پیش نہیں کئے جاتے نہ روٹین کے سیاسی نشیب و فراز کو ’’زوال امت‘‘ کی پیش گوئیوں کا ہدف بنایا جاتا ہے، ناگزیر صرف جمہوری تسلسل کا جاری رہنا ہوتا ہے یہ جو موروثی سیاست، برادری سیاست، عوام کی لا علمی اور ووٹ کے تقدس کا خیال نہ رکھنا، کرپشن کی صفائی سے پہلے کچھ نہیں ہونا چاہئے، جیسے مسائل پر جو فلسفے بھگارے جاتے ہیں وہ غیر پیداواری اور غیر فطری ہیں، پاکستان میں جمہوریت کے پودے کو موسم کے قدرتی قوانین کے تحت پروان ہی نہیں چڑھنے دیا گیا، اسے طاقت اور سازش کے ہتھیاروں سے کاٹا جاتا رہا، یہ نہ ہوتا اور پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت جاری رہتی، اب تک دس بارہ بار عام قومی انتخابات منعقد ہو چکے ہوتے تب نہ یہ سوال اٹھنے تھے نہ کوئی موروثیت باقی رہنی تھی، ارتقا قدرت کا قانون ہے، آپ ہر دو چار سال بعد طاقت اور سازش کے بل بوتے پر اس قانون کا تیا پانچہ کر دیں اور پھر ملک میں بحرانوں کے لئے ’’جمہوریت‘‘ کو ذمہ دار ٹھہرائیں یہ حد درجہ جہالت یا حد درجہ مکاری ہے۔
الیکشن کے انعقاد کے مسئلہ پر بحوالہ مردم شماری دو بڑی سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف اور ایم کیو ایم میں جو سیاسی تنازعہ شروع ہو گیا ہے جس سے الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی 30نومبر کی ڈیڈ لائن تک پارلیمانی جماعتوں کا جواب دینا مشکل نظر آتا ہے، اس میں عام قومی انتخابات کے التوا کی ’’درفنطنی‘‘ اور قوم دشمنی کا قابل نفرین جواز کہاں سے پیدا ہو گیا؟ کیا ایسی بات کو جس کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل آتا ہے، ان شاء اللہ، نظام لپیٹنے کے اندیشوں تک لے جانا ایک منصوبہ بند ابتدائی شرارت نہیں؟
جنہیں قومی سفر کے نتیجے میں ملک و قوم کے عروج کو دیکھنے کی تڑپ ہوتی ہے وہ کیا کہہ رہے ہیں، ایسے ہی ایک صاحب کا ’’ٹوٹا‘‘ ملاحظہ فرمایئے۔ ان کا کہنا ہے! ’’اگر پاکستان کو بچانا ہے تو فوراً انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ عوام جن کے پاس حتمی طاقت ہے، موجودہ حالات کے مطابق لوگوں کو منتخب کر کے نئی حکومت بنا دیں، حلقہ بندیاں اور دوسری باتیں جو اس وقت ہو رہی ہیں، سب فضول ہیں، تیاری کے بغیر ہی انتخابات کرا دینے چاہئیں، دوسری جنگ عظیم میں چرچل نے برطانیہ کو بچایا، اگر وہ نہ ہوتا تو برطانیہ کا بیڑہ غرق ہو جاتا اور جرمن قابض ہو جاتے مگر اس نے کہا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے اس لئے عوام کو یہ موقع ملنا ضروری ہے کہ فیصلہ کریں کہ وہ مجھے یا اپوزیشن میں سے کس کو ووٹ دینا چاہتے ہیں، جب الیکشن ہوئے تو عوام نے اسے کک آئوٹ کر دیا۔ یہ عوامی فیصلہ تھا کہ آپ نے اپنا کام کر دیا، حقائق بدل چکے ہیں اور ہمیں کسی اور شخص کی ضرورت ہے۔ یہ عوام کی مرضی ہے وہ جس کو چاہیں ووٹ دیں اور جس کو چاہیں باہر نکال دیں‘‘
پاکستانی عوام اور پاکستانی نوجوانوں کو شعوری سطح پر سنجیدگی اور ترقی پسندی کا راستہ بھی اپنانا چاہئے، وہ سوشل میڈیا پر ’’نظریاتی جدوجہد‘‘ یا ’’لفظی آوارگی‘‘ جیسے مشاغل سے بے شک باز نہ آئیں، پھر بھی وقت نکال کر ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے قومی فوائد اور اس راستے کو داغدار کرنے والوں نے ملک و قوم کو جن نقصان سے دوچار کیا ایسے موضوعات کی تحقیقات میں جانا چاہئے، نئی نسل خاص طور پر ایک ون ملین ڈالر سوال پر ’’سوال‘‘ اٹھائے بحث کا آغاز کرے، مکالمے کو رواج دے، وہ ون ملین ڈالر سوال یہ ہے۔
-o’’آخر شروع سے لے کر آج تک ’’منتخب وزیراعظم‘‘ اور ’’منتخب پارلیمنٹ‘‘ ہی برصغیر کی دھرتی کے اس ٹکڑے پر ’’برائی‘‘ کا استعارہ کیوں ہے؟
پاکستانی عوام ایسی تاریخ کے کھوج پر نکلیں، پھر انہیں نواز شریف کے اس سوال ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی رمز بھی سمجھ آ جائے گی؟ پھر انہیں ’’میمو گیٹ‘‘ کا بھی پتا چل جائے گا؟ اور جانے کون کون سے ’’پھر‘‘ ان کے قدموں تلے سے زمین نکال دیں گے؟ پاکستان کی سیکورٹی بشمول افواج پاکستان ہر پاکستانی کے دین و ایمان کا حصہ ہے، وطن عزیز کے درودیوار کی سلامتی ہماری جان و مال اور عزت و آبرو کی ضامن ہے، دہشت گردی کے عفریت کے ہاتھوں جن کی شہادتیں ہوئیں جو بموں کے دھماکوں میں ہلاک ہوئے اور جو آج بھی رات اور دن کی آزمائشوں میں اپنی جانیں ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں، ہم سب ان سے محبت، ان کے احترام اور ان کی یادوں میں شرابور ہیں، تاہم ایک اور پہلو پاکستان کی جغرافیائی بقا، داخلی سلامتی اور انسانی ترقی سے جڑا ہوا ہے یعنی سیکورٹی فورسز کے فرائض کی ادائیگی کے اس ریلے میں پاکستان کے عوام کن حالتوں واقعات کے قیدی بن چکے ہیں، ان کی اس قید سے جنم لینے والے دکھوں کے ابواب کون تحریر کرے گا؟

تازہ ترین