• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فی الحال اِسموگ یعنی ’’کثیف دھند‘‘ کا معاملہ عمومی طور پر پنجاب تک محدود ہے۔ یہ اِسموگ نہ صرف سرحد کے دونوں اطراف صوبے پنجاب کو بری طرح اپنے لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، بلکہ صوبے کے دونوں اطراف بسنے والے لوگ ہی دراصل اِس ’’کثیف دھند‘‘ کا سب سے بڑا منبع بھی ہیں۔ پنجاب کے اِس پار حالات انتہائی ناقابل بیان ہیں۔ صوبے کے شمالی اور زیریں علاقوں میں بسنے والوں کو کم و بیش روزانہ جان لیوا حادثات اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔ اگر اس آفت پر جلد قابو نہ پایا گیا تو یقیناً ٹٹول ٹٹول کر روزمرّہ کے کام نمٹانے کے فن میں مہارت حاصل کرنے والا ہی اس ملک میں رہ کر کامیاب زندگی گزار سکے گا! آج کے دن تک بظاہر صوبائی اور وفاقی حکومتیں اور تمام متعلقہ ادارے اس دھند کے آگے انتہائی بے بس ثابت ہورہے ہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم کی آمد کا معاملہ، جو کبھی سیکورٹی کے خدشات اور کبھی بی پی ایل کے سبب پہلے ہی کھٹائی میں پڑا ہوا تھا، اس آلودہ دھند کی وجہ سے اب مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے۔ تاثر ہے کہ ویسٹ انڈیز کے نہ آنے کا یہ مایوس کن فیصلہ پنجاب پر چھائی ہوئی اس کثیف دھند کی وجہ سے ہی کیا گیا ہے۔
متاثرہ علاقوں میں اسموگ پھیلنے کی مختلف وجوہات بیان کی جا رہی ہیں ۔ دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر دھان کی فصل کے باقیات کا جلایا جانا اس صورتحال کا سب سے اہم سبب قرار دیا جارہا ہے۔ شہری علاقوں میں اور ہائے ویز پر چلنے والی بڑی اور مال بردار گاڑیوں میں استعمال ہونیوالے تیل اور فلٹرز سے کاربن کا اخراج بھی بڑی وجہ مانا جا رہا ہے۔ شاید خاص روایتی مائنڈ سیٹ رکھنے والے ہمارے منتخب حکمران اور غیرمنتخب متعلقہ افسران کا خیال تھا کہ صورتحال میں شدّت آتے ہی بیان داغ دیا جائیگا کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کی طرح وطن عزیز کو درپیش اسموگ کا مسئلہ بھی یہود و ہنود کی کسی نئی سازش کا نتیجہ ہے۔ لیکن غالباً بین الاقوامی میڈیا کے بدلتے ہوئے رنگ ڈھنگ کی وجہ سے ایک تبدیلی تو رونما ہوئی کہ مسئلے کے اصل اسباب کو سرحد پار ڈھونڈنے کیساتھ ساتھ مقامی سطح پر موجود اسکی ممکنہ وجوہات پر بھی بات کی جارہی ہے۔
یہ سچ ہے کہ سرحد کے اُس پار بھی اسموگ مستقل غضب ڈھارہی ہے۔ بلکہ وہاں تو معاملہ مایوسی سے بڑھ کر شرمندگی تک جا پہنچا ہے۔ گزشتہ منگل بلجیم کے کنگ فلپ اور ان کی اہلیہ کے دارلحکومت نئی دہلی پہنچنے پر شاندار استقبال کے دوران شاہی جوڑے کو شہر کے معروف صدارتی محل میں انتہائی شدید دھند کے دوران گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ ایک ہندوستانی صحافی دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تقریب میں ہر کام صرف اندازے سے کیا جا رہا تھا۔ اس موقعے پر لی گئی تصاویر انتہائی تشویشناک حد تک دھندلی ہیں اور نیٹ پر دستیاب ہیں۔تازہ خبر یہ ہے کہ لاہور میں اسموگ کے سبب اسکول کے اوقات تبدیل کئے جانے کے بعد دلّی اور اطراف میں اسکول مکمل طور پر بند کردیئے گئے ہیں۔
دلّی سے بائے روڈ ہماچل پردیش میں واقع اپنے گائوں جاتے ہوئے اس صحافی دوست نے بتایا کہ وہ شدید اسموگ کے باعث پچھلے دو گھنٹوں میں بہ مشکل دس کلومیٹرز کا سفر طے کرسکا ہے۔ فون پر کی گئی اس گفتگو کے دوران مجھے کبھی ان کے ڈرائیور پر حیرت ہوتی اور کبھی ان حضرات کے گائوں جانے کے پختہ ارادے پر رشک آتا! دلّی سے تعلق رکھنے والی صحافی سیّدہ عفیفہ نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اترپردیش، ہریانہ اور مشرقی پنجاب میں فصلوں کی باقیات کے جلائے جانے اور دلّی کی سڑکوں پر چلنے والی اَن گنت گاڑیوں کو صورتحال کا سب سے بڑا سبب قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب، ہریانہ اور دلّی کے علاوہ علی گڑھ، غازی آباد اور بلند شہر سمیت اترپردیش کے مغربی علاقوں میں مستقل دھند چھائی رہتی ہے۔ یعنی سرحد کے دونوں اطراف فصل کے باقیات کا انتہائی بڑے پیمانے پر جلایا جانا اور غیرمعمولی تعداد میں موجود گاڑیوں سے خارج ہونے والا کاربن پاکستان میں گوجرانوالہ سے لیکر ہندوستان میں مغربی یوپی تک پھیلی اس آلودہ دھندکے بنیادی اسباب ہیں۔ ہندوستان میں صورتحال پر قابو پانے کے لئے تمام تھرمل پاورپلانٹس مکمل طور پر بند کردیئے گئے ہیں جبکہ فصل کے باقیات جلانے پر جرمانہ بھی رکھا گیا ہے۔ لیکن سیّدہ عفیفہ کہتی ہیں کہ جرمانے کی رقم اتنی واجبی ہے کہ ایک عام کسان خلاف ورزی کرکے باآسانی رقم ادا کردیتا ہے۔
اسموگ، آلودہ کہر یا کثیف دھند کے اس آسیب کا ماحول میں پیدا ہونے والی قدرتی تبدیلیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سو فیصد اِنسان کے اپنے ہاتھوں سے مستقل پیدا ہونے والی آلودگی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ لفظ اسموگ اٹھارویں صدی کے مغربی یورپ کی یاد دلاتا ہے جب برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے بعد مصنوعات کی پیداوار کے لئے پے در پے مشینیں متعارف کرائی جارہی تھیں۔ اِس دور سے پہلے دھوئیں کا تصور صرف لکڑی، کوئلے اور تیل کے جلنے سے منسوب تھا جبکہ تعمیراتی خام مال، برتن، فرنیچر، کاغذ، کپڑے اور اشیائے خوردنی سمیت زیادہ تر مصنوعات کی تیاری میں بہت زیادہ آلودگی پیدا نہیں ہوا کرتی تھی۔ مشینی ثقافت کے بڑھاوے سے قبل کرہ ارض پر ماحولیاتی تازگی کے آخری ادوار تک صبح کے وقت پھیلی کہر نعمت سمجھی جاتی تھی۔ آج کے لاہور کے بر عکس علی الصبح پھیلی ہوئی کہر میں چہل قدمی ایک صحت مند عادت سمجھی جاتی تھی۔ لیکن پھر صنعتی پیداوار میں غیرمعمولی اضافہ یورپ کے گنجان آباد اور صنعتی علاقوں میں ایسی ہی ’’کثیف دھند‘‘ کا سبب بننے لگا۔ انیسویں صدی کے وسط سے بیسویں صدی کے اوائل تک لندن اس دھند سے متاثر ہونے والا بدترین شہر سمجھا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ لندن میں پھیلتی ہوئی آلودہ دھند کے لئے پہلی بار انگریزی الفاظ اسموک (Smoke)اور (Fog)کو ملا کر لفظ اسموگ (Smog) آج سے کوئی ایک صدی قبل استعمال کیا گیا تھا۔لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس اصطلاح کو ایجاد یا استعمال کرنیوالوں نے اس کثیف دھند کے اندوہناک آسیب سے عشروں پہلے ہی جان چھڑا لی تھی۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہندوستان کو مورد الزام ٹھہرانے سے دل بھر جانے پر وہاں کے ذمہ دار افراد کے ساتھ مل بیٹھ کر اس آسیب سے موثر اور مستقل نجات کا بندوبست کیا جائے ورنہ یہ معاملہ خدانخواستہ مستقبل قریب میں حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ کیا معلوم دو طرفہ دعائو ں میں زیادہ اثر ہوتا ہو!

تازہ ترین