• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہکشاں اور قُطبی ستارہ!...نقش خیال…عرفان صدیقی

ہفتہ بھر قبل میں نے کہا تھا کہ غالباً پیپلزپارٹی تنہائی کے آشوب کا شکار ہونے کو ہے۔ اب یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ڈھلوان کا سفر شروع ہوگیا ہے۔ ڈھلوانی سفر کے دوران بھی اگر ہاتھ باگ پر اور پاؤں رکاب میں رہیں تو گھوڑا بے قابو نہیں ہوتا۔ لیکن اب کے حالات کی کروٹیں کچھ اور کہہ رہی اور معاملات کا بہاؤ گرفت سے نکلتا جارہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو صدر زرداری کے قلعہ اقتدار کی سب سے مضبوط اینٹ خیال کیا جاتا تھا جو سب سے پہلے سرک گئی۔ اب ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے الگ ہو گئی ہے۔ الطاف حسین موسموں کو مرضی کا رُخ دینے والی ہواؤں کی بو باس کو بخوبی جانتے پہچانتے اور اُن سے صاحب سلامت بھی رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے مولانا کی طرح چھلانگ لگانے کے بجائے‘ زینہ زینہ نیچے اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دو وفاقی وزراء کے استعفوں کے باوجود ایم کیو ایم بدستور سرکاری بینچوں پر بیٹھے گی۔ ابھی اُس نے سندھ حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ بھی نہیں کیا۔ اس کے لئے سب سے اہم فیصلہ گورنر عشرت العباد کے استعفے کا ہوگا جس کے بعد وثوق سے کہا جاسکے گا کہ اب راہیں جدا ہوگئی ہیں۔ لیکن ایک واضح پیغام بھیج دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو بدلتی رت کا اندازہ ہونے لگا ہے۔مسلم لیگ(ق) کی ساری مرغیاں‘ چوہدری شجاعت حسین کے ڈربے میں نہیں۔ وہ دانہ دنکا کہیں چگتیں‘ کڑکڑ کہیں کرتی اور انڈا کہیں دیتی ہیں۔ اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس قبیلے میں چوہدری برادران ہی سب سے زیادہ موثر ہیں اور اُنہی کی آواز تمام آوازوں پر حاوی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی ضرب کاری کے فوراً بعد چوہدری شجاعت حسین نے کم از کم دوبار اُن سے رابطہ کیا۔ دو تین دن حالات کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے واضح طور پر تاثر دیا کہ اب پیپلزپارٹی سے ہمسفری اُن کی پہلی ترجیح نہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کو ایک دوسرے کا دست و بازو قرار دیا۔ کھل کر کہا کہ وہ پنجاب میں پی پی پی کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گے۔ چوہدری صاحب کے اس پیغام کو ٹھیک ٹھیک سمجھا گیا۔ پہلا ردعمل مونس الہٰی کے دفتر پر ایف آئی اے کی یلغار سے سامنے آگیا۔
ایک اور بڑی پیش رفت چوہدری شجاعت اور عمران خان کی ملاقات سے ہوئی۔ مبصرین نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن درحقیقت اس میں ایک جہان معنی چھپا ہوا ہے۔ عمران خان نے فاتح کارگل‘ جنرل پرویز مشرف کے ”انقلاب عظیم“ کا والہانہ خیر مقدم کیا تھا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے جن لوگوں کے کڑے احتساب کا مطالبہ کررہے تھے۔ ان میں شریف اور چوہدری خاندان سرفہرست تھے۔ مشرف کے بارے میں عمران خان کی خوش گمانیاں دیر تک قائم رہیں۔ نائن الیون کے بعد جب مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکیوں کے قدموں میں ڈال دیا تو بھی خان صاحب کا رومانس نہ ٹوٹا۔ جب پاکستان کے ہوائی اڈوں سے افغانستان پرستاون ہزار آٹھ سو حملے ہوئے تو بھی خان صاحب مشرف کے پہلو میں تھے۔ریفرنڈم کے ہراول دستے میں وہ سب سے نمایاں تھے۔ شیشے میں بال اس وقت آیا جب پرویز مشرف نے اپنی سیاسی شطرنج کیلئے زیادہ مشاق لوگوں کی طرف رُخ کیا اور چوہدری برادران حلقہ خاص میں آگئے۔ 2002ء کے انتخابات تک تعلق کا ایک سلسلہ باقی رہا اور پھر خان صاحب مایوس ہوگئے۔ دیر تک وہ کاغذات کا ایک پلندہ لہراتے ہوئے چوہدری برادران کو بینکوں کا نادہندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ انہیں ایسے ایسے القابات سے نوازتے رہے جو سیاست میں زیادہ زیبا نہیں سمجھے جاتے۔ حال ہی میں عظیم دوست ملک چین کے وزیراعظم تشریف لائے تو خان صاحب کو بھی عشایئے میں دعوت دی گئی۔ وہ پاکستان کے واحد قابل ذکر لیڈر تھے جو دعوت میں نہ گئے اور کہا۔ ”میں ایسے ویسے لوگوں سے ہاتھ نہیں ملاسکتا“۔
چوہدری شجاعت‘ عمران خان کے ہاں گئے۔ اُنہیں خراج پیش کیا۔ دونوں راہنما شانہ بشانہ پریس کانفرنس میں کھڑے ہوئے۔ جواباً خان صاحب نے چوہدری صاحب کی سیاست کو سراہتے ہوئے کہا کہ ”اس وقت مسلم لیگ (ق) ہی پیپلزپارٹی کی واحد اپوزیشن ہے“۔ آنکھیں رکھنے والوں کو پس منظر پیش منظر اور تہہ منظر میں بہت کچھ پڑھ لینا چاہئے۔ مسلم لیگ (ق) نے رابطوں کا سفر پیر صاحب پگاڑا کی بارگاہ عالی میں حاضری سے شروع کیا تھا‘ جو سلسلہٴ عسکریہ کے خلیفہ خاص ہیں۔ اب وہ ساری رنجشیں بھلا کر عمران خان کے پاس پہنچی ہے‘ تو کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی۔ چوہدری شجاعت‘ زیرک اور کہنہ مشق سیاستدان ہیں۔ اُنہیں مرزا غالب کا یہ شعر ازبر ہے کہ
چاک مت کرجیب بی ایام گل
کچھ ادُھر کا بھی اشارہ چاہئے
میرے خیال میں مولانافضل الرحمن کی بغاوت اور ایم کیوایم کی انگڑائی کو چوہدری‘ عمران ملاقات سے الگ کرکے نہیں دیکھنا چاہئے۔ اگر نئے نظام ”شمسی“ کو سمجھنا ہے تو دیکھنا ہوگا کہ کہکشاں تراشنے والی قوتیں کیا کرتب دکھاتی اور قُطبی ستارہ کون ہوگا؟۔ جس طرح پیپلزپارٹی کے بال وپر جھڑ رہے ہیں‘اسی طرح مسلم لیگ (ن) بھی بڑی حد تک سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔
اے این پی‘ مولانا فضل الرحمن‘ ایم کیو ایم‘ عمران خان‘ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ (ق) سب مسلم لیگ (ن) سے منہ موڑے کھڑے ہیں۔ انتخابی سیاست میں یہ سب نواز شریف کو آصف زرداری سے کہیں بڑا حریف خیال کرتے ہیں۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف اپنی مرضی کانظام شمسی تشکیل دینے والی قوتوں سے کنارہ کرچکے ہیں۔ اور اُس کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہتے جو برس ہا برس سے پاکستان کی رگوں کی توانائی چاٹ رہا ہے۔ اگر زرداری حکومت بھی کھوکھلی ہوکر گرجانے کو ہے اور نواز شریف بھی دام میں نہیں آرہا تو پھر باقی ماندہ چھوٹی بڑی سیاسی قوتوں کو یکجا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ سو کہکشاں ابھرنے لگی ہے اور ”قُطبی ستارہ“ کے خدوخال بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔
صدر آصف زرداری کی سیاسی حسیات خاصی تیز ہیں۔ انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ شوخ ہوائیں کن منطقوں سے آرہی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کی تقریر میں جماؤ اور رچاؤ نہ تھا۔ وہ اکھڑے اکھڑے سے رہے۔ انہوں نے بی بی سے ایک تصوراتی مکالمہ تو کرلیا لیکن پاکستان کے عوام سے مخاطب نہ ہوسکے۔ انہوں نے خون آشام مہنگائی‘ بے روزگاری‘ روز افزوں غربت‘ بجلی اور گیس کے شدید بحران‘ بند ہوتی صنعتوں‘ ڈوبتی معیشت‘ بڑھتے ہوئے قرضوں‘ بے مہار کرپشن جیسے مسائل میں سے کسی کا ذکر نہ کیا۔ محترمہ نے کوئی سوال پوچھنا ہوتا تو شاید اُن کا پہلا سوال ہوتا۔ ”میرے قاتل پکڑے گئے یا نہیں؟ میں نے مشرف کو اپنا قاتل نامزد کیا تھا۔ وہ کہاں ہے؟“ صدر نے بیت الله محسود کو قاتل قرار دے کر فائل بندکردی۔
کسی قُطبی ستارے کے گرد کہکشاں کا نوارانی ہالہ بننے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ یہ جمہوریت کے لئے اچھا شگون نہیں کہ معاملہ عوام کے ہاتھوں سے چھین کر کہکشائیں تراشنے اور قُطبی ستارے بنانے والے جادوگر اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ صدر زرداری اب تک اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے خاصے محتاط رہے ہیں اور حتی الامکان اس کی دلداری بھی کی ہے۔ اب کے تو انہوں نے اپنی تقریر میں بھی کوئی اشارہ تک نہیں کیا لیکن موسم بدلنے والی شوخ ہوائیں بھی ہرجائی دلرباؤں کی طرح ہوتی ہیں۔ آن میں کچھ‘ آن میں کچھ۔


تازہ ترین