• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ ن کا اداروں سے اختلاف بڑھتا جارہا ہے۔ اداروں کے سیاسی کردار کا چرچا عروج پر ہے۔یہ تاثر شد ت اختیار کرتا جارہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے خلاف ہونے والے ہر اقدام کے پیچھے درپردہ قوتیں ہیں۔نوازشریف اپنی نااہلی کے بعد کسی بھی ادارے پر اعتماد کرنے کوتیار نہیں ہیں۔نوازشریف کو یقین ہے کہ انہیں ایک مرتبہ پھر دھوکہ دیا جائے گا۔حالیہ صورتحال میں کوئی ایک فریق بھی معاف کرو اور بھول جاؤ کی پالیسی پر عمل کرنے کو تیار نہیں ۔نوازشریف کو پلان اے کے ذریعے نااہل قرار دلوانے والوں کے لئے پلان بی اور پلان سی پر عمل کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔ڈیڑھ سال کی پاناما مہم اور پھر نوازشریف کی نااہلی کے باوجود مسلم لیگ ن کا ووٹر نہیں ٹوٹ سکا۔وجہ جو بھی ہو مگر مسلم لیگ ن کے ووٹر کا نوازشریف کے ساتھ ڈٹے رہنا کچھ قوتوں کے لئے خطرے کی بات ہے۔نوازشریف کو اقتدار سے بے دخل تو کردیا گیا ہے مگر عوام سے دور نہیں کیا جاسکا۔آج کے بدترین حالات میں بھی مسلم لیگ ن کا ووٹر نوازشریف کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔عوامی طاقت کا نوازشریف سے جڑے رہنا ہی پلان بی اورسی پر عمل کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔
نوازشریف کی نااہلی کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ مسلم لیگ ن سکڑ کر رہ جائے گی اور اس کا حال بھی پیپلزپارٹی سے مختلف نہیں ہوگا۔لیکن اداروں کے اندازے جی ٹی روڈ مارچ کے دوران غلط ثابت ہوئے۔آج بھی شریف برادران پنجاب کے سب سے مقبول سیاسی رہنما ہیں۔نوازشریف ایسے حالات میں طاقت کے سامنے سرنڈر نہیں کرنا چاہتے۔جبکہ طاقت کے مسیحا انتخابات کی طرف جاتے ہوئے ہچکچارہے ہیں۔اداروں کے پاس جتنی بھی طاقت ہو مگر عوامی طاقت ہر شے کو کچل کررکھ دیتی ہے۔پلان بی میں تحریک انصاف کو حکومت میں لانا تھا۔مگر زمینی حقائق ساتھ نہیں دے رہے۔ دھاندلی، اداروں کی سپورٹ اور نوازشریف کو کرپشن کیسز میں الجھا کر بھی تحریک انصاف کو واضح اکثریت دلوانا ممکن نظر نہیں آتا۔مجھے یاد ہے کہ سابق آمر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں چھوٹے چھوٹے گروپس اور جماعتوں کو ملا کر مسلم لیگ ق کی بنیاد ڈالی گئی۔میجر جنرل(ر) احتشام ضمیر مرحوم اس پلان کے خالق تھے۔انتخابات میں پوری طاقت لگائی گئی مگر مسلم لیگ ق واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی۔چونکہ تب ارکان اسمبلی کی وفاداری تبدیل کرنے کے قانون میں کوئی خاص پکڑ نہیں تھی ،اس لئے منتخب اراکین اسمبلی کو موثر فون کالز کی گئیں۔کچھ کے خلاف نیب کیسز تیار کرنے کی دھمکی بھی دی گئی۔کئی اراکین اسمبلی کو وزارتوں اور ترقیاتی فنڈز کی آفر بھی کی گئی۔اس طرح اراکین کی اچھی خاصی تعداد مشرف لیگ یعنی ق لیگ کا ساتھ دینے کو تیار ہوگئی۔مگر اس کے باوجود جب وزیراعظم کے لئے ایوان زیریں میں پولنگ کا آغاز ہوا تو متحدہ مجلس عمل سابق آمر پرویز مشرف سے ایک ووٹ سے ہار گئی تھی۔اس لئے یہ ضروری نہیں کہ طاقت کے گھروں میں بیٹھ کر جو فیصلے کئے جائیں وہ کامیاب بھی ہوجائیں۔2008کے انتخابات میں پرویز مشرف کے اوسان خطا ہوتے ہوئے مناظرکو اس خاکسار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔میجر جنرل(ر)نصرت سابق آمر پرویز مشرف کے منظور نظر ہوا کرتے تھے۔2008کے ا نتخابات کی نگرانی انہیں سونپی گئی تھی۔پرویز مشرف مطمئن تھے کہ طاقت کے بل بوتے پر بنائی گئی مسلم لیگ ق واضح اکثریت سے کامیاب ہوجائے گی۔مگر پولنگ ختم ہونے کے بعد جب مشرف الیکشن سیل پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر تشریف لائے اور نتائج موصول ہونا شروع ہوئے تو مشرف کی کیفیت آج بھی یاد ہے۔شروع کے نتائج دیکھ کر جنرل صاحب نے غصے سے کچھ فون نمبر ملائے مگر جب نتائج آنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا اور مسلم لیگ ق کی ہار پی ٹی وی کی مانیٹرنگ اسکرین پر واضح ہوتی ہوئی نظر آئی توجنرل صاحب شدید پریشانی اور غصے کے عالم میں پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر سے چلے گئے۔یہ وہ چند مثالیں ہیں جن میں اس خاکسار نے عہدے کی طاقت کو عوامی طاقت کے سامنے شکست کھاتے دیکھا ہے۔اب بھی کوئی بعید نہیں کہ نوازشریف اداروں سے ٹکرانے کے بعد عام انتخابات میں حصہ لے اور ایک مرتبہ پھر ملک کی سب سے بڑی جماعت کا سربراہ بن کر سامنے آئے۔
نوازشریف کے لئے بدترین بھی سوچا جائے تو نتائج میں مسلم لیگ ن کو شکست ہوسکتی ہے۔تحریک انصاف اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔مگر اس بات کو ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پھر بھی ملک میں سب سے مضبوط اپوزیشن مسلم لیگ ن ہی ہوگی اور صرف دس یا بیس ووٹوں کا فرق ہوگا۔اگر تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کا متفقہ امیدوار 175ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوجائے اور دوسری طرف مسلم لیگ ن اور اتحادی 130اراکین اسمبلی کے ساتھ اپوزیشن بنچوں پر براجمان ہوجائیں تو ایسے میں کسی بھی حکومت کو کام سے روکنا کوئی مشکل نہ ہوگا۔نوازشریف تو چاہیں گے کہ نہ کھیلوں گا اور نہ کھیلنے دوں گا۔اس لئے معروضی حالات بتاتے ہیں کہ اگر نوازشریف کو ہرا بھی دیا گیا تب بھی سب سے مضبوط اپوزیشن کا لیڈر ہوگا۔مارشل لا کی پوری طاقت کے باجود میر ظفر اللہ خان جمالی ایک ووٹ سے وزیراعظم بنے تھے ،آج تو پھر بھی حالات بہت مختلف ہیں۔ اداروں کا ایک بڑا اور موثر گروپ پلان بی کے لئے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف پر اعتماد نہیں کرتا اورانہیں ناقابل اعتبار سمجھتا ہے۔جبکہ جو گروپ تحریک انصاف کو نوازشریف سے بہتر سمجھتا ہے ،اسے یقین نہیںہے کہ مسلم لیگ ن سے مکمل جنگ کے باوجود تحریک انصاف سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔اس لئے نوازشریف مشکلات اورتذبذب کی کیفیت کا شکار ہیں تو سکون میں ادارے بھی نہیں ہیں۔جو لوگ پلان سی پر عمل کرکے ایک کنگز پارٹی بنانا چاہتے ہیں ،انہیں ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے معاملے میں سب کچھ نظر آچکا ہے۔اس لئے نوازشریف کی نااہلی کے بعد پلان بی اور سی بھی لٹکا ہوا ہے۔کسی دوست نے خوب لکھا ہے کہ نوازشریف،فوج اور عدلیہ تین بڑے فریق ہیں۔ان تینوں فریقین کو معاف کرو اور بھول جاؤ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کا احساس کرنا چاہئے۔

تازہ ترین